‘انجمن تجدید و فروغ مرثیہ’ کے زیر اہتمام محلہ پچدرہ کے عزا خانہ شیخ ولیہ میں تحت اللفظ مرثہ خوانی کی مجلسوں کا عشرہ ختم ہو گیا۔ اس عشرہ مجالس میں پانچ بیرونی ندیم زیدی،افسر دبیری، خورشید رضا فتح پوری، دانش فیض آبادی اور شکیل شمسی اور پانچ مقامی تحت خوانوں ڈاکٹر لاڈلے رہبر، وسیم امروہوی، شان حیدر بے باک، جمشید کمال اور ڈاکٹر ناشر نقوی نے تحت اللفظ طریقے سے مراثی پیش کئے۔مرثیہ گو تحت خوانوں نے طبع زاد مراثی پیش کئے بقیہ نے میرانیس، مرزا دبیر اور نسیم امروہوی کے نظم کردہ مراثی پیش کئے۔
اس برس منعقدہ تحت اللفظ مرثیہ خوانی کے عشرے کی خاص بات یہ رہیکہ پورے عشرے پر امروہیت غالب رہی۔ امروہا کے پانچ تحت خوانوں نے مراثی پیش کئے۔ ان میں تین وسیم امروہوی، شان حیدر بے باک اور ڈاکٹر ناشر نقوی خود مرثیہ نگار ہیں۔ جنہوں نے طبع زاد مراثی پیش کئے یہی نہیں بلکہ بقیہ پانچ تحت اللفظ مرثیہ خوانوں میں بھی بیشتر نے امروہا کے ہی مرثیہ نگاروں کا کلام پیش کیا۔ پہلی مجلس میں ڈاکٹر لاڈلے نے نسیم امروہوی کا نظم کردہ جناب سید سجاد کے حال کا مرثیہ پیش کیا۔ ندیم زیدی نوگانوی نے نسیم امروہوی کا جناب قاسم ابن حسن کے حال کا مرثیہ اور جمشید کمال نے پانی کے عنوان پر نسیم امروہوی کا نظم کردہ مریہ پڑھا۔ مرزا سلامت علی دبیر کے خاندان کی فرد افسر دبیری نے اپنے جد کا نظم کردہ مرثیہ اور خورشید رضا فتح پوری نے میر انیس کا نظم کردہ مرثیہ پیش کیا۔
اس عشرے میں تحت اللفظ مرثیہ پیش کرنے والے نصف تحت خوان بذات خود مرثیہ گو شعرا تھے۔ ناشر نقوی، بے باک امروہوی، وسیم امروہوی، دانش فیض آبادی اور شکیل شمسی جنہوں نےاپنا نظم کردہ کلام پیش کیا۔
نوشہ امروہوی،لیاقت امروہوی،واحد امروہوی، تاجدار امروہوی، پنڈت بھون شرما امروہوی، ناظم امروہوی، ارمان ساحل امروہوی، فراز امروہوی، ضیا کاظمی اور راحیل امروہوی نے پیش خوانی کی جبکہ داراب رضا، محمد ظفر، مزمل حسین، محمد شجاع، شاکر حسین، سبط سجاد، مدثر علی خاں،محمد اصغر، تنویز حسین اور ثمر امروہوی اور انکے ہمنواؤں نے سوز خانی کی۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہیکہ تحت اللفظ مرثیہ کا اکیسواں عشرہ امروہا کے مرثیہ نگاروں کے نام رہا اور پورے عشرے پر امروہا کی مرثیہ نگاری غالب رہی۔۔۔