امروہا میں سرسی والے حکیم کا اصلی نام شاید ہی کوئی جانتا ہو لیکن وہ دور دور تک مشہور ہیں۔کسی کی ہٖڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ کسی کے ہاتھ پیر میں موچ آجائے۔ بدن میں جھٹکا آجائے۔ وہ نہ کسی اسپتال کا رخ کرتا ہے اور نہ کسی Orthopedic ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ وہ سیدھا رخ کرتا ہے سرسی والے حکیم کے گھر کا۔ سرسی والے حکیم کا گھر ہی شفا خانہ ہے شفا خانہ ہی گھر ہے۔
وہ چوبیسوں گھنٹے لوگوں کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں۔ کہاں سے ہڈی ٹوٹی ہے۔ کتنی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔ ہڈی میں کہاں بال آگیا ہے۔ کتنی اوبچائی سے گر کر ہڈی ٹوٹی ہے۔ سرسی والے حکیم مریض کےمتاثر مقام پر ہاتھ رکھ کر ہی بتا دیتے ہیں ۔ جب وہ یہ بتاتے ہیں کہ دس فٹ کی اونچائی سے کس رخ سے زمین پر مریض گرا ہے تو ایسا لگتا ہیکہ وہ چشم دید واقعہ بیان کررہے ہیں۔ وہ مریض کی مرہم پٹی کرنے کے بعد ایکسرے مریض کی تسلی کے لئے کراتے ہیں ۔ ورنہ انہیں یہ پتہ لگانے کے لئے کہ ہڈی کہاں سے ٹوٹی ہے اور بال کہا آیا ہے۔ موچ آئی ہیکہ جھٹکا آیا ہے یا ہاتھ پاؤں مڑ گیا ہے۔ ایکسرے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
سرسی والے حکیم کا حقیقی نام علی امید ہے۔انکے والد ولی محمد عرف ببو کے نام سے مشہور تھے۔ وہ ضلع سنبھل کے قصبے سرسی سادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ایک زمانے میں انکے روزگار کا ذریعہ چائے کی دوکان تھی۔ ٹوٹی ہڈیا جوڑنے ، موچ اور جھٹکا نکالنے کا پنر انہوں نے علاقے کے ماسٹر امامت حسین سے سیکھا۔ یہ ہنر سیکھنے کا شوق بھی انہیں اس وقت سے پیدا ہوا جب انکی بہن کی کولہے کی ہڈی مقام سے ہٹ گئی تھی۔ وہ درد سے تڑپتی تھیں۔ انکا چلنا پھرنا دوبھر ہو گیا تھا۔ ایک دن ماسٹر امامت حسین نے انہیں اس حالت میں دیکھا اور کمر کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیکر کولہے کی ہڈی کو مقام پر بٹھا دیا۔ علی امید نے جب بہن کو ٹھیک ٹھاک ڈھنگ سے چلتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے پر بہن نے پورا ماجرا بتا دیا۔ بس اسی روز سے علی امید کے دل میں یہ خواہش جوان ہونے لگی کہ وہ بھی کسی دن یہ ہنر حاصل کرکے لوگوں کو درد اور تکلیف سے نجات دلائیں گے۔ علی امید نے ماسٹر امامت حسین کی شاگردی اختیار کرلی اور ان سے یہ ہنر سیکھ لیا۔ کچھ انکی محنت اور کچھ خدا کی رحمت نے یہ رنگ دکھا یا کہ 35 برس کے دوران انہوں نے ایسے ایسے مریضوں کو بھلا چنگا کردیا جنکے لئے ڈاکٹر کہہ چکے تھے کہ وہ بستر سے کبھی اٹھ نہیں پائیں گے۔ یا ہمیشہ کے لئے اپاہج ہو جائیں گے۔
سرسی والے حکیم مریض کے علاج کے لئے اپنے گھر میں تیار مرہم کا استعمال کرتے ہیں۔ جسکا نسخہ وہ خفیہ رکھتے ہیں۔وہ متاثرہ مقام پر باندھنے کے لئےمختلف قسم کی پٹیوں اور ضرورت محسوس ہونے پر بانس کی کھپچیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ٹرکوں کے حساب سے انکے شفا خانہ میں مختلف قسم کی پٹیاں آتی ہیں اور استعمال شدہ پٹیاں فروخت کردی جاتی ہیں۔
سرسی والے حکیم کی قابلیت اور ہنر دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور انہوں نے فیزیو تھریپی میں کوئی ڈگری ڈپلومہ حاصل نہیں کیا ہے۔ سرسی والے حکیم کی ایک خصوصیت اور بھی ہے کہ وہ مریض سے بہت مناسب فیس وصول کرتے ہیں۔ دوست، احباب، جان ،پہچان والوں اور غریبوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے عام رواج کے بر خلاف وہ رات میں مریض کی خدمت کرنے کا کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ رات گیارہ بجے سے لیکر صبح چھ بجے تک آنے والے مریض کا مفت علاج کرتے ہیں۔ دوردراز سے آنے والے مریضوں کو اپنے گھر میں ٹھہراتے ہیں اور ان سے وہی چارج کرتے ہیں جو عام مریضوں سے کرتے ہیں۔ مریض اور اسکے تیمار دار چاہے ایک ہفتہ رہیں یا ایک مہینہ ان سے کمرے کا کرایہ تک نہیں لیتے۔ محمد اور آل محمد کے عاشق سرسی والے حکیم ایام عزا میں حاصل اپنی کمائی کا نوے فیصد امام حسین کی عزاداری پر خرچ کر دیتے ہیں۔عزاداری اور نزر و نیاز کے لئے وہ اپنے وطن سرسی جاتے ہیں۔
سرسی سادات 70 ہزار کی آبادی والا چھوٹا سا قصبہ ہے۔ جہاں شرح خواندگی 70 فیصد ہے۔ جو قومی شرح خواندگی سے زیادہ ہے۔ مردوں میں شرح خواندگی 78 فیصد اور خواتین کی شرح خواندگی 64 فیصد ہے۔
علم و ادب کی بستی سرسی سادات کی آغوش میں کئی نامور شعرا اور علما نے پرورش پائی۔ان میں رضارسوی، نیر سرسوی، تسکین زیدی سرسوی،خوشحال زیدی سرسوی،فیلسوف الشعراء علامہ سید سرسوی ،حکیم الملک محمد عباس برق سرسوی ،علامہ محمد ہادی قائد سرسوی ،مولانا عل ہادی جوہر سرسوی ،اشرف العلماء مولانا تنویر حسین نجفی ،بابائے فلسفہ مولانا ایوب حسین سرسوی اورمولانا حسین الزماں جیسی شخصیات قابل ذکر ہیں۔