
امروہا کے صاحب طرز شاعر ندیم عرشی مرحوم کی یاد میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ ‘بیاد ندیم عرشی’ کے عنوان کے تحت اس نشست کا اہتمام انکے فرزند فراز عرشی نے اپنی رہائش گاہ پر کیا تھا۔ یہ مخصوص شعری نشست شہر کے استاد شاعر شان حیدر بے باک امروہوی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ استاد شاعر مسرور جوہر، لیاقت امروہوی، جمشید کمال اور اسلام عالمی مہمان خصوصی کے طور پر مسند پر موجود تھے۔

نشست کی نظامت شیبان قادری نے کی۔اس نشست کی خصوصیت یہ رہی کہ اس میں شہر ادب کے تقریباًتمام ممتاز شعرا نے شرکت کی۔جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں صاحب صدر شان حیدر بے باک امروہوی۔ مسرور جوہر، لیاقت امروہوی،ڈاکٹر لاڈلے رہبر،حسن امام حسن، جمشید کمال، جمال فہمی، مبارک امروہوی، ڈاکٹر ناصر،شیبان قادری، رضوان عباس، اشرف فراز، فراز عرشی،شہاب انور،وفا امروہوی،شاہنواز تقی،ضیا کاظمی، شاندار امروہوی،کوکب امروہوی،انیس امروہوی،نازش امروہوی،فیض عالم،مہربان امروہوی اور ارمان ساحل شامل تھے۔

ندیم عرشی امروہا کے ایک صاحب طرز شاعر تھے۔ انکا اصل نام علی منتظم رضا تھا۔7نومبر1950 کو پیدا ہونے والے ندیم عرشی نے1975 سے شاعری شروع کردی تھی۔ انہیں شاعری اپنے دادا سید عسکری رضا سے ورثہ میں ملی تھی۔ جو اپنے دور کے صاحب دیوان اور استاد شاعر تھے اور عرش امروہوی کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔بر صغیر کے معروف مرثیہ گو شاعر قائم رضا نسیم امروہوی انکے شاگرد تھے۔ شاعری میں اپنے دادا کی وراثت سنبھالنے والے علی منتظم رضا نےاپنے تخلص ندیم کے ساتھ عرشی کو ملحق کرکے عرش امروہوی سے اپنے تعلق کو ظاہر کیا۔اب ندیم عرشی کے فرزند فرازعرشی اسی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

نبدیم عرشی کے مجموعہ کلام ‘تردید’ کو با ذوق افراد نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔4اپریل2016 کو دنیائے شعرو ادب کو الوداع کہنے والے ندیم عرشی کے متعدد اشعار بہت مقبول ہیں۔
پم پہ قدروں سے بغاوت کا نشہ چھایا تھا
ہم سبک ظرف بزرگوں کا ادب کیا کرتے
۔۔
ہمارے گھر سے رخصت ہو گئی اجداد کی شوکت
ہماری گفتگو سے بوئے سلطانی نہیں جاتی
ہماری شاعری تو سرخی خوں سے عبارت ہے
ہم اپنے شعر میں بے رنگ گلکاری نہیں کرتے
۔۔
سیاست داں ہوں منصب دار ہوں یا ہوں حرم والے
غزل والے کسی کی ناز برداری نہیں کرتے
غالب و میر کی دستار نہ گرنے دیں گے
اے غزل ہم ترا معیار نہ گرنے دیں گے
جانے کیسی حسرت اسکے دل میں ہے
کاغز پر دستار بناتا رہتا ہے۔
اگر غصہ بھی آتا ہے تو قدریں روک لیتی ہیں۔
ہم اپنے گھر میں بھی لہجے کو بازاری نہیں کرتے