شمالی ہندستان کے اس چھوٹے سے خطے امروہا نےعلم و ادب اور فنون لطیفہ کی دنیا کو نامور ہستیاں دی ہیں۔سرزمین امروہا کبھی علمی اور ادبی ہستیوں کے وجود سے خالی نہیں رہی۔ امروہا کے اہل قلم مختلف موضوعات پر قلمی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔ اہل قلم کے ہاتھوں تقریباً ہر ماہ کوئی نہ کوئی تخلیق وجود میں آتی ہی رہتی ہے۔مولانا ڈاکٹرشہوار نقوی بھی ان ہی اہل قلم میں شامل ہیں جو ہمیشہ کسی نہ کسی پروجیکٹ پر کام کرتے رہتے ہیں۔وہ عالم دین اور ذاکر کے ساتھ ساتھ محقق بھی ہیں اور مولف و مرتب بھی۔انہوں نے مختلف موضوعات پر درجنوں کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں۔تحقیق میں انکو خاص دلچسپی ہے۔مذہبیات و دینیات سے لیکر تاریخ کے نہاں خانوں سے نا بغہ روز گار ہستیوں کو تلاش کرکے انکے کارنامو ں کو کتابی شکل میں محفوظ کرنا انکا محبوب مشغلہ ہے۔ انکی تحقیق و تالیف کا دائرہ کار وطن عزیز سے لیکر بر صغیر ہند و پاک تک پھیلا ہوا ہے۔
انکی قلمی خدمات کا جائزہ لینے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک طائرانہ ہی سہی نظر ڈالنا زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔سید شہوار حسین نقوی نے5مئی 1972 کو امروہا کے محلہ حقانی میں سید علمدار حسین کے گھر میں آنکھیں کھولیں۔بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کے شوقین شہوار حسین کی ابتدائی تعلیم شہر کے قدیم تعلیمی ادارے امام المدارس( آئی ایم کالج) انٹر کالج میں ہوئی۔مذہبیات میں انکی خاص دلچسپی کو دیکھتے ہوئے انہیں ہندستان کی ممتاز دینی درسگاہ لکھنؤ کے مدرسہ ناظمیہ میں داخل کرادیا گیا۔فارسی اور عربی بورڈ سے انہوں نے فاضل ادب کورس کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل تفسیر کی ڈگری حاصل کی۔مزید دینی تعلیم ایران کے شہر قم المقدس کے حوزہ علمیہ سے حاصل کی۔انکا اصل میدان دین و مذہب اورتحقیق و تا لیف ہے اسکے ساتھ ساتھ انکی طبیعت کا میلان ادب کی جانب بھی رہا ہے اسکا ثبوت معروف شاعر اور مصنف مہدی نظمی کی حیات اور ادبی خدمات پر انکا تحقیقی مقالہ ہے۔ جسکی بنیاد پر روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی۔
ڈاکٹر مولانا شہوار نقوی کی اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان پر بھی مضبوط گرفت ہے۔ وہ تقریباً 20 کتابیں ترتیب،تالیف اور تصنیف کرچکے ہیں ان میں کئی کتابیں فارسی زبان میں ہیں۔فارسی زبان میں تالیف انکی ایک کتاب کو گولڈ میڈل سے نوازہ جا چکا ہے۔
امروہا سے متعلق وہ چار کتابیں ترتیب دے چکے ہیں جن میں’ پہلی جنگ آزادی میں امروہا کا حصہ’ اورامروہا کی ایک قدیم اور جامع تاریخ” تاریخ اصغری’ کی مقدمہ کے ساتھ اشاعت اہمیت کی حامل ہیں۔ اسکے علاوہ مولانا شہوار نے امروہا کے علما سے دنیائے علم کو متعارف کراتے ہوئے” تزکرہ علما امروہا” لکھی۔امروہا کی نامور شیعہ علمی ، دینبی اور سماجی ہستیوں کے تعارف کے ساتھ انہوں نے” تاریخ شیعان امروہا” تحریر کی۔اسمیں مختلف محلوں کی معروف ہستیوں، علما٘، عزا خانوں ، مسجدوں اور قبرستانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔’پہلی جنگ آزادی میں امروہا کا حصہ ‘نامی کتاب میں امروہا کے مجاہدین آزادی کی قربانیاں اور انکے قید و بند کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب اس لئے بھی تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیکہ یہ کتاب جیل سے لکھے گئے مجاہدین کے خطوط پر مبنی ہے۔
امروہا کی حدود سے نکل کر جب مولانا شہوار کے قلم کا رخ بر صغیر کی جانب ہوا تو امام سجاد کی دعاؤں کے مجموعے’ صحیفہ سجادیہ’ کے مترجمین پر مشتمل کتاب لکھی۔اس کتاب میں صحیفہ سجادیہ کے برصغیر سے تعلق رکھنے والے33 مترجمیں کا ذکر ہے جن میں ایک کا تعلق امروہا سے ہے۔انہوں نے بر صغیر کے شیعہ علما کا تزکرہ بھی لکھا۔قرآن مجید کی تفسیر لکھنے والے شیعہ علما کا تزکرہ بھی لکھا۔ ‘تزکرہ مفسرین امامیہ۔ بر صغیر’715صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب میں پندرہویں صدی ہجری تک کے مفسرین کا ذکر ہے۔مولانا شہوار کی ایک اہم کتاب مولائے کائنات کے خطبات، فرامین ، خطوط اور نصیحتوں پر مشتمل کتاب نہج البلاغہ کی شرحیں لکھنے والے شیعہ اور سنی علما سے متعلق تخلیق ہے۔503صفحات پر مشتمل اس کتاب میں گیارہ سے لیکر پندرہویں صدی ہجری تک کے 125 شارحین کو شامل کیا گیا ہے۔ ان شارحین میں بارہ کا تعلق امروہا سے ہے۔
مولانا شہوار کے دیگر نمایاں قلمی کارناموں میں’ اسلامی جنرل نالج’ ،’جواہر الحدیث’، تالیفات شیعہ(فارسی)،’مقدمہ ترجمہ قرآن ڈاکٹر زیرک حسین’،’علامہ یوسف حسین نجفی حیات اور کارنامے’،’تزکرہ شہیدان کربلا’ اور’مہدی نظمی حیات اور کارنامے’ شامل ہیں۔
خطابت اورتصنیف و تالیف کے علاوہ مولانا شہوار نقوی نوجوانوں کو اسلامی تاریخ سے واقف کرنے میں بھی مشغول رہتے ہیں۔’تاریخ اسلام کا بیان ‘کے عنوان سے وہ اپنی رہائش گاہ پر واقع جامعہ الھدا میں ہفتہ واری لیکچر سیریز کا اہتمام کرتے ہیں۔