بدلتے ہوئے دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر شہ انحتاط کا شکار ہے۔ متعلقات عزا بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ عزاداری کے نام پر پتہ نہیں کن کن فضولیات کو رواج دیا جارہا ہے۔ نوحہ گوئی اور نوحہ خوانی عزاداری کا ایک جزو لاینفک ہے۔ رثائی ادب کی یہ اہم صنف بھی انحتاط کی زد پر ہے۔ نوحہ، رثاٰئیت، گریہ اور بکا سے عبارت ہے لیکن آجکل کے نوحوں کی لفظیات کو سنئے۔ تو عجیب سی الجھن محسوس ہوتی ہے۔ایسا لگتا ہیکہ ہم نوحے کا مطلب ہی نہیں جانتے۔ ۔۔نوحے کے نام پر کہیں کلمہ سننے کو ملتا ہے ۔ تو کہیں الحمد اور قل ہو واللہ ۔ تو کہیں حب الوطنی کا نغمہ۔ تو کبھی آئمہ اطہار اور دیگر مقدس ہستیوں کے فضائل۔ طرفہ تماشہ یہ بھی ہیکہ ماتم دار کلمے، قرآنی آیات، آئمہ اطہار کے فضائل اور حب الوطنی کے نغمے پر سینہ زنی کرتے ہیں۔ افسوس اس با ت پر بھی ہوتا ہیکہ ان باتوں پر کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔ بر صغیر ہندو پاک میں نوحے کی روح مردہ ہو کر رہ گئی ہے۔آجکل کے نوحوں سے گریہ اور بکا کے عناصر ناپید ہو گئے ہیں۔ نوحے کا وقار مجروح ہو گیا ہے۔
لیکن ‘ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ”۔ قدروں کے ذوال اورتہزیب عزا کے انحتاط کے دور میں بھی شاعر اہل بیت شمیم امروہوی اصل اور حقیقی نوحے نظم کر رہے ہیں اور نوحے کی اس پر اثر اور مقبول صنف کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔ شمیم امروہوی نے نوحے کی حسیت اور رثائیت کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ دیگر نوحہ گویوں کی رہنمائی بھی کی ہے اور انکی ترغیب و تحریک کا سبب بھی رہے ہیں۔
شمیم امروہوی کے نظم کردہ کس کس نوحے کا ذکر کیا جائے۔ انکا نظم کردہ ہر نوحہ رقت و گریہ کا سب بنتا ہے۔
‘اے ام حبیبہ’،اے اہل عزا شبیر کا غم’،زہرا کی آغوش کے پالے’،بڑی پر درد شاہ کربلا کی داستاں نکلی۔’،
حیدر سے تھا زینب کا ںوحہ کیا کیا میں سناؤں اے با با’،چشم گریاں ڈھونڈ لے رومال زہرا ہے کہاں”۔۔
دور عزا کے آخری ایام میں شمیم امروہوی کے نظم کردہ نوحے ہی شہر کی فضا میں گونجا کرتے ہیں۔۔ امروہا کے عزادار یہ نوحے پڑھ کرامام مظلوم کو وداع کرتے ہیں۔
”یا حسین الوداع یا حسین الوداع”،”ہو قبول اب ہمارا وداعی سلام”۔
حقیقی نوحے کی بقا اور ترقی کے لئے شمیم امروہوی کے ساتھ شہر عزا امروہا کی ماتمی انجمنیں بھی مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے نوحہ خوانی اور سینہ زنی کے حوالے سے روح عزا کو مجروح نہیں ہونے دیا۔انہوں نے نوحوں کی روح بُکا کو بھی محفوظ رکھا ہے اور سینہ زنی کے وقار کی بھی حفاظت کی ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شمیم امروہوی کے نظم کردہ نوحے رثائی ادب میں اضافہ بھی ہیں اور اس کا قیمتی سرمایہ بھی ہیں۔اہل امروہا انکی رثائی خدمات پر جتنا فخر کریں کم ہے۔ پرور دگار عالم بیمار کربلا اور بیمار مدینہ کے صدقے میں انہیں صحت کے ساتھ تا دیر سلامت رکھے۔ تاکہ وہ مزید پر درد اور پر تاثیر نوحے نظم کرتے رہیں۔۔ آمین یا رب العالمین ۔(جمال عباس فہمی)