بانو کہتی تھی شانہ ہلا کر۔۔ صبح ہوتی ہے جاگو سکینہ
شہنائی پر یہ نوحہ سن کر وہاں موجود بہت سے لوگوں کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اتر پردیش کے سنبھل سے تعلق رکھنے والے شہنائی نواز شبیر حسین آجکل امروہا آئے ہوئے ہیں۔ وہ عزا خانوں میں جاتے ہیں اور وہاں موجود مومنین کے سامنے شہنائی پر نوحہ سنا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ غمناک فضا کو مزید سوگوار بنا دیتے ہیں۔۔
80 سالہ شبیر حسین نے شہنائی بجانے کا فن اپنے چچا رجن ماسٹر سے سیکھا تھا۔ شبیر حسین گزشتہ 65 برس سے شہنائی بجا رہے ہیں۔ یہی انکا روزگار ہے۔ امروہا کے مختلف عزا خانوں میں لوگ شہنائی پر نوحہ سننے کے بعد کچھ نہ کچھ نزرانہ پیش کردیتے ہیں۔ایک دور تھا جب انہیں شادیوں اور دیگر خوشی کے موقعوں پر شہنائی بجانے کے لئے مدعو کیا جاتا تھا۔ لیکن شہنائی بجانے کا فن بھی معدوم ہوتا جارہا ہے اسکی وجہ یہ ہیکہ فن کے قدردان نہیں رہے جب قدردان نہیں رہے تو اسکو سیکھنے والے بھی کم سے کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ شبیر حسین اپنے خاندان کے تنہا فرد ہیں جو شہنائی بجاتے ہیں۔ انکے بیٹے بھی اس فن سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
ہندستان میں شہنائی نوازی کے فن کو استاد بسم اللہ خاں نے عروج بخشا۔ استاد بسم اللہ خاں کی شہنائی سال کے گیارہ مہینے دنیا بھر میں گونجتی تھی لیکن محرم آتے ہی وہ خود بھی سیاہ لباس پہن لیا کرتے تھے اور انکی شہنائی سے نو حوں کی غمگین دھنیں پھوٹتی تھی۔ محرم میں استاد بسم اللہ خاں کسی تقریب اور پروگرام میں شہنائی نہیں بجاتے تھے۔ انکی موت کے ساتھ ہی نہندستان میں شہنائی کے سر بھی دم توڑ گئے ہیں۔