
Amroha literally belongs to the renaissance period of eulogy. There has also been a spring in the literal sense of reciting mourning in the season of mourning. Literally, Marathi prayers are being presented on the minbars in most of the congregations held in the city.
امروہا میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا کہ جب تحت اللفظ مرثیہ خوانی کا رواج تقریباً معدوم ہو چلا تھا۔ تحت خوانی کرنے والی نئی نسل وجود میں نہیں آئی تھی اور عمر رسیدہ تحت اللفظ مرثیہ خواں یکے بادیگرے دنیا سے رخصت ہورہے تھے لیکن گزشتہ انتیس تیس برسوں میں تحت اللفظ مرثیہ خوانی کے رواج نے پھر عروج حاصل کیا ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ شعرا کا مرثیہ گو ئی کی طرف بڑھتا رجحان ہے۔ نئے مرثیہ گویوں نے منبر پر اپنا کلام خود پڑھنا شروع کیا۔ اس میں سب سے پہلا اور بڑا نام ڈاکٹر عظیم امروہوی کا ہے۔ عظیم امروہوی کو امروہا میں تحت اللفظ مرثیہ خوانی کے نئے دور کا بانی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔انہوں نے 1975اپنا پہلا مرثیہ محلہ بگلہ کے عزا خانے میں دو محرم کو پیش کیا تھا۔ڈاکٹر عظیم امروہوی نو جوانوں کے تحت خوانی کی جانب راغب ہونےکا محرک بنے۔
ڈاکٹر ناشر نقوی،ماساٹر شان حیدر بے باک امروہوی، وسیم امروہوی، ڈاکٹر لاڈلے رہبر، حسنین امروہوی، فرقان امروہوی، انجم امروہوی ،ضیا حیدر،پیمبر نقوی ،ڈاکٹر عظیم امروہوی کے فرزند مہران امروہوی،ڈاکٹر جمشید کمال، ذیشان علی،اشرف فراز ، شجاع عباس ،مظہر مہدی اور سکندر امروہوی جیسے افراد تحت اللفظ مرثیہ خوانی کی ترویج اور اسکو مقبول بنانے میں کردار ادا کررہے ہیں۔ناشر نقوی،حسنین امروہوی ،شان حیدر بے باک اور وسیم امروہوی طبع زاد مراثی منبر پر تحت اللفظ انداز میں پیش کرتے ہیں جبکہ بقیہ تحت خواں حضرات دیگر شعرا کا کلام اپنے اپنے مخصوص انداز میں پیش کر کے تحت اللفظ مرثیہ خوانی کے رواج کو فروغ دے رہے ہیں۔فرقان امروہوی اور انجم امروہوی نے ابتدا تو بطور نثار کی تھی لیکن اب وہ نثاری کے ساتھ ساتھ تحت خوانی بھی کرتے ہیں۔
اللہ رکھے اہل تولا کے درمیاں
فہم حروف و لفظ و معنیٰ عروج پر
امروہا کے افق پی شہ صبر کے طفیل
ہے آفتاب مرثیہ خوانی عروج پر