امروہا کا محرم جن امور کے لئے انفرادی حیثیت رکھتا ہے ان میں ہندؤں کی امام حسین سے عقیدت خاص طور سے قابل ذکرہے۔ مسلم عقیدت مندوں کی طرح ہندو مرد و خواتین بھی شہیدان کربلا سے اپنی دلی محبت، عقیدت اور احترام کا اظہار کرتی ہیں۔
عزائی تبرکات کے احترام سے لیکر ماتمی جلوسوں کے استقبال اور عزاداروں کی خاطر مدارات میں ہندو عقیدت مند مسلمانوں کی طرح پیش پیش رہتے ہیں۔ محلہ منڈی چوب کے پھول فروخت کرنے والے دوکاندار ہوں یا بڑا بازار کے بابا گنگا ناتھ مندر کی انتظامیہ کمیٹی کے ارکان ہوں علموں ، تابوت، اور ذولجناح پر ہار پھول چڑھاتے ہیں اور عزاداروں پر پھول برسا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
ہندو خواتین بھی محرم میں منتیں مانتی ہیں اور مرادیں پوری ہونے پر ذولجناح پر چادریں چڑھاتی ہیں۔ ذولجناح کو دودھ میں بھیگے ہوئے چنے کھلاتی ہیں۔
کربلا میں تین روز کے بھوکے پیاسے امام حسین اور انکے ساتھیوں کے نام پر ہندو بھی عزاداروں کی پیاس بجھانے کے لئے سبیلیں لگاتے ہیں۔ نگر پالیکا کی چیئرپرسن ششی جین نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ماتمی جلوس کا استقبال کیا۔
پنڈت بھون کمار شرما اور ستیندر دھاریوال جیسے لوگ محرم کو بھائی چارے کے فروغ کا وسیلہ قراردیتے ہوئے امام حسین سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
ہندو مسلم ثقافتی یک جہتی کا نظارہ 9 محرم کو نشانوں کے جلوس میں نظر آتا ہے۔ محلہ دربار کلاں سے علموں کا جلوس برامد ہو کر محلہ کٹکوئ کے عزا خانے جاتا ہے۔ ان علموں کا نشا کہا جاتا ہے۔ ہر نشان پر زرد رنگ کا ایک کپڑا بندھا ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ علم پر زرد کپڑا باندھنے کی ابتدا بابا گنگا ناتھ نے کی تھی۔
آج بھی بابا گنگا ناتھ مندر کی انتظامیہ کمیٹی کے ارکان اور شہر کے معزز ہندو افراد نشانوں پر پھول چڑھا کر اپنی عقیدت ظاہر کرتے ہیں۔اس برس بھی نشانوں کے جلوس کا استقبال کرنے والوں میں مندر کمیٹی کے پرتول شرما، پون شرما ، سچین رستوگی، امیش گپتا، ستیندر دھاری وال، پنڈت بھون کمار شرما اور ڈاکٹر ناشر نقوی کے ساتھ ساتھ متعدد ہندو برادران شامل تھے۔
امروہا میں3 محرم سے 10 محرم تک علوں اور تعزیوں کے جلوس برامد ہوتے ہیں۔ تین محرم سے آٹھ محرم تک برامد ہونے والا ہر جلوس صبح سے شام تک تقریباً 17 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے اپنے مقام آغاز پر واپس آتا ہے۔ یوم عاشور ہ کو تربتوں اور تعزیوں کے جلوس برامد ہوتے ہیں۔