qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگقومی و عالمی خبریں

امروہا ۔ہندو گل فروش ماتمی جلوس پر پھول برساتے ہیں۔عزاداری میں فرقہ وارانہ محبت کے نظارے۔

آج ملک کے ماحول میں مسلمانوں کے تئیں نفرت گھلی ہوئی ہے۔مسلمانوں سے متعلق ہر شے شدت پسندوں کے نشانے پر ہے۔شدت پسند عناصر کو نہ مسجدیں پسند ہیں نا آذان۔نہ انکے مدرسے برداشت ہیں نہ انکی مذہبی شناخت۔ نہ مسلم لڑکیوں کا با حجاب رہنا شدت پسندوں کو ہضم ہورہا ہے نا ہندؤں کے علاقے میں کاروبار کرتے مسلمان ہندو شدت پسندوں کو پھوٹی آنکھ بھا رہے ہیں۔ کچھ ریاستوں اور علاقوں کو چھوڑ کر مذہبی منافرت کا یہ ماحول پورے ملک میں قائم ہے ۔اتر پردیش کے ضلع پرتاپ گڑھ کے ایک دیہات میں محرم کے موقع پر مسلمانوں کے ذریعے قائم کیا گیا عارضی گیٹ بھی شدت پسند عناصر کو برداشت نہیں ہورہاہے۔ مقامی بی جے پی ایم ایل اے نے اس گیٹ کو ہٹوانے کانتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے۔ایم ایل اے کا باپ اس گیٹ کے خلاف احتجاج میں دھرنا پر بیٹھ گیا۔لیکن اسی اتر پردیش کاایک چھوٹا سا شہر امروہا ،اس پراگندہ اور پر آشوب دور میں بھی مذہبی رواداری،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آپسی بھائی چارے کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔مذہبی رواداری کی مثال امروہا کی عزاداری میں بڑی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔امروہا میں امام حسین کی عزا داری نہ مسلکی اختلافات سے آلودہ ہے اور نہ مذہبی نفرت سے پراگندہ ہے۔

محلہ بڑا بازار میں ہندؤں کی کچھ دوکانیں ہیں جہاں ہار، پھول، سہرے اور گجرے فروخت ہوتے ہیں۔ہندو دوکاندار،ماتمی جلوس کے تبرکات اور عزاداروں پر پھول برساتے ہیں۔عزاداروں پر پھول نچھاور کرکے یہ ہندو گل فروش نہ صرف امام حسین سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ثبوت بھی
پیش کرتے ہیں۔ہندو گل فروشوں کے ذریعے ماتمی جلوس پر پھول برسانے کا سلسلہ تین محرم کو برامد ہونے والے پہلے ماتمی جلوس سے شروع ہوجاتا ہے۔اور یہ سلسلہ نو محرم کو برامد ہونے والے نشانوں کے جلوس تک جاری رہتا ہے۔ہندو گل فروش ذولجناح پر پھولوں کا ہار بھی چڑھاتے ہیں اور چادر بھی پیش کرتے ہیں۔

گل فروش لکشمن پرساد کہتے ہیں کہ وہ ماتمی جلوس پر پھول برسا کر اپنی خاندانی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ وہ تو بس عقیدت کے سبب ایسا کرتے ہیں۔ملک میں مسلمانوں سے نفرت کے ماحول سے انہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

منوج نامی ایک اور گل فروش کا کہنا ہیکہ جب تک اسکے والد زندہ تھے وہ ماتمی جلوس کا استقبال کرتے تھے ۔ اب وہ کرتا ہے اور آئندہ اسکی اولاد اس روایت کو برقرر رکھے گی۔

مذہب کی بنیاد پر نفرت کے اس ماحول میں امروہا ایک شاندار اور تابناک مثال ہے جس کو اپنا کر دیگر برادران وطن ملک کو امن و آشتی کا پھر سے گہوارہ بنا سکتے ہیں۔

Related posts

طالبان کو صحت و پولیس کے شعبوں میں خواتین کی فوری ضرورت ہے۔

qaumikhabrein

برطانیہ میں کورونا پابندیوں کو ختم کیا جارہا ہے۔

qaumikhabrein

مختار عباس نقوی گھر کے نہ گھاٹ کے

qaumikhabrein

Leave a Comment