شہر عزا امروہا میں موسم عزا کا آغاز ہو چکا ہے۔ چاند رات سے ہی عزا خانوں میں مجالس کا اہتمام کیا جانے لگا ۔ یکم محرم کی صبح سے دیر رات تک مجلسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ رویتی طور پر امروہا میں یکم محرم کو معروف مرثیہ،”فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے۔۔سادات کی بستی کے اجڑنے کی خبر ہے۔” پڑھا جاتا ہے۔ نماز فجر کے بعد سے شروع ہوکرمجالس کا سلسلہ صبح دس بجے تک جاری رہتا ہے۔ لیکن تین محرم سے جلوسوں کی برامدگی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اس لئے صبح آٹھ بجے تک مجالس موقوف کردی جاتی ہیں۔ مغرب کے بعد مجلسوں کا سلسلہ پھر شروع ہوتا ہے جو دیر رات جاری رہتا ہے۔
شہر کے تقریباً تمام عزا خانوں میں مجلسیں برپا ہوتی ہیں۔ جن میں اہل محلہ شریک ہوتے ہیں۔ سوز خوانی کے بعد کہیں منبر پر ذاکری ہوتی ہے۔ کہیں نثاری تو کہیں تحت اللفظ مرثیہ خوانی۔ غیر ملکوں میں آباد اہل امروہا کی وطن آمد کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔علما کے خانوادے کی فرد تقدیس نقوی بھی دوبئی سے وطن پہونچ چکے ہیں۔وہ ذاکری کی اپنی خاندانی روایت کو سمبھالے ہوئے ہیں۔ یکم محرم کو انہوں نے پچدرہ کے عزا خانہ میں مجلس عزا سے خطاب کیا۔ ۔ تقدیس نقونی نے قرآن کے احترام ، تعظیم اور معرفت کے موضوع پر مختصر مگر جامع تقریر کی۔ اس مجلس میں سوز خوانی ظفر علی اور انکے ہمنواؤں نے کی۔
عزا خانہ مسماۃ چھجی میں بھی قدیم عشرہ جاری ہے۔ یکم محرم کی مجلس سے شاعر اور ذاکر اہل بیت سامی نقوی نے خطاب کیا۔ مجلس میں سوز خوانی سید سبط سجاد اور انکے ہمنواؤں نے کی۔ ادھر دربار شاہ ولایت میں شہر کی آخری مجلس برپا ہوئی جس سے نائب امام احسن اختر سروش نے خطاب کیا۔ سوز خوانی افضال حیدر اور انکے ہمنواؤں نے کی۔