کربلا کے عظیم واقعہ کا ہر کردار قدرت کا منتخب کردہ تھا۔ خواہ وہ حر ابن یزید ریاحی ہی کیوں نہ ہو۔کربلا میں اور کربلا کے بعد کے کردار بدل گئے۔ انکا مقصد بھی تبدیل ہو گیا۔ امام حسین اور انکے رفیقوں نے دین مصطفیٰ کو بچانے کے لئےقربانی دی تو بی بی زینب، امام سجاد، اور بی بی ام کلثوم نے فوج یزیدی کے مظالم برداشت کرتے ہوئے کربلا کی قربانی اور اسکے مقصد سے دنیا کو واقف کرایا۔ بی بی زینب نے اسیر رہتے ہوئے کوفہ و شام میں جو معرکے سر کئے اس سے انکی جرات اور بہادری ظاہر ہوتی ہے۔ کربلا میں شہادتوں کے بعد جلتے ہوئے خیمے سے حجت خدا امام سجاد کو بچا کر بی بی زینب سے الہٰی فریضہ انجام دیا۔ رسولوں کی تاریخ گواہ ہیکہ اللہ نے اپنی حجتوں کی زندگیوں کودشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھا ہے۔ بی بی زینب نے روز عاشور امام وقت زین العابدین کو بھڑکتے ہوئے شعلوں سے بچا کر کار الہیٰ کو انجام دیا ۔
امروہا کے محلہ جعفری کے عزا خانہ قمر انسا میں عشرے کی آخری مجلس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مشہدی نے بی بی زینب کی ولادت سے لیکر کربلا کو محفوظ کرنےتک کی انکی خدمات کا ذکر کیا۔ انہوں نے روایات کے حوالے سے بتایا کہ مولا علی اور بی بی فاطمہ کی اس بیٹی کا نام اللہ نے زینب رکھا۔ جسکا مطلب ہوتا ہے باپ کی زینت۔ یعنی بی بی زینب اپنے اس باپ مولا علی کے لئے باعث زینب ہیں جو کائنات کی زینت ہیں۔
مولانا مشہدی نے شام و کوفہ کے درباروں میں بی بی زینب کے خطبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے دربار اور شام میں حکمران وقت یزید کے دربار میں بی بی کے خطبات انکے حوصلے، دلیری اور جرات کا ثبوت ہیں۔ اقتدار کی طاقت کے نشے میں چور یزید کو اسکے بھرے دربار میں ‘ابن طلقا’ کہکر بی بی زینب نے اسکی اوقات بتادی تھی۔ بی بی زینب نے یزید کو ابن طلہقا کہہ کر فتح مکہ کے بعد کے اس واقعہ کی یاد دلادی۔ جب یزید کے دادا ابو سفیان، اسکی دادی ہندہ اوراسکے باپ معاویہ کو گرفتار کرکے لایا گیا تھا۔ انکے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ نے انہیں آزاد کردیا تھا۔ رسول اللہ کے ذریعے آزاد کردہ ان افراد کو ‘طلقا’ کہا جاتا ہے۔ طلقا کا مطلب ہے آزاد کردہ غلام۔ بی بی زینب نے یزید کو اپنے نانا کے ذریعے آزاد کردہ غلام کا بیٹا کہہ کر اسے اسکی حیثیت بتائی تھی۔ کسی حکمران وقت کو اسکے دربار میں اس طرح سے للکارنا بی بی زینب کی بہادری کی دلیل ہے۔ مولانا مشہدی نے اس بات کی بھی تشریح کی کہ بی بی زینب نے علی کے لہجے میں خطبہ دیا تھا۔ لہجے سے مراد اس انداز سے ہے جو مولا علی یزید کے باپ کے ساتھ تخاطب میں استعمال کرتے تھے۔ مولا علی بھی یزید کے باپ کو ‘ابن طلقا’ کہتے تھے۔
مولانا مشہدی نے اپنے حافظے اور خطابت کے جوہر دکھا کر اس عشرے کو یادگار بنا دیا۔ انہوں نے دوران مجالس علی اکبر اور جناب قاسم ابن حسن کے رجز اور جناب عباس ابن علی کا وہ خطبہ پیش کیا جو انہوں نے خانہ کعبہ کی چھت پر دیا تھا۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب امام حسین حج کو عمرے میں تبدیل کرکے واپس جارہے تھے۔ آخری مجلس میں مولانا مشہدی نے دربار شام میں دیا گیا بی بی زینب کا خطبہ پیش کیا۔ مولانا مشہدی نے اس عشرہ مجالس میں فرش عزا کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ فرش عزا سے کربلا اور کربلا سے اللہ تک پہونچا جاسکتا ہے۔ عشرے کی آخری مجلس میں سوز خوانی سید محمد ظفر اور انکے ہمنواؤں نے کی۔