ہر عزائے حسین امروہا کے محلہ جعفری میں جاری عشرے کی آٹھویں مجلس کئی لحاظ سے یاد گار رہی۔ اس عشرہ مجالس سے نوجوان مجتہد مولانا یوسف مشہدی خطاب کررہے ہیں۔مولانا مشہدی کی تقریر کا اہم حصہ لشکر حسینی کے علمدار عباس ابن علی علیہ السلام کے اس خطاب پر مشتمل تھا جو انہوں نے شب عاشور 72نفوس پر مشتمل اس مختصر سے لشکر سے کیا تھا۔یہ خطبہ مولا عباس کے کلام کی بلاغت کا بین ثبوت ہے۔ایسی فصاحب ، بلاغت اور معنی آفرینی صاحب نہج بلاغہ کے فرزند ہی کا حصہ ہے۔حضرت عباس کے خطبہ میں حمد باری تعالٰی بھی ہے۔ لشکر کے جوش اور ولولہ میں اضافہ کرنے والے کلمات بھی ہیں۔اپنا تعارف بھی ہے۔
۔مولا علی کا فرزند ہونے پر فخر و مباہات بھی ہے۔لشکر یزید کے سپاہیوں کو انکے آبا و اجداد کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی یاد دہانی بھی ہے۔بروز عاشورہ اپنی بہادری اور شجاعت دکھانے کا عزم بھی ہے۔اس تمنا کا اظہار بھی ہیکہ کاش آقاحسین انہیں عاشور کے دن جنگ کرنے کی اجازت دیدیں۔
حضرت عباس علیہ السلام نے اس خطبہ میں انصاران حسینی سے کہا کہ انہیں کفار سے خوفزدہ ہونے کی ضروت نہیں ہے۔ شر انگریز عناصر کی بھاری تعداد سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ امام حسین کے مد مقابل جہنم کے کتے ہیں۔اور یہ نجس لوگ تم جیسے پاک طینت اور امام حسین کے منتخبہ افراد کے سامنے ٹہر نہیں سکتے ہیں۔ اسکے بعد جناب عباس نےانصاران حسینی کو انکی عظمت اور منزلت بتاتے ہوئے کہا کہ تمہیں اللہ نے عالم زر میں ہی امام حسین کی نصرت کے لئے منتخب کرلیا تھا۔تم خلقت کا لب و لباب اور خلاصہ کائنات ہو۔ اسی خطبے میں حضرت عباس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ اللہ کی ہیبت ہیں اور وہ ہیں جسے مولا علی حیدر کرار نے اللہ سے طلب کیا تھا۔وہ صاحب ذولفقار کی تلوار ہیں۔حضرت عباس نے اسکے بعدعاشورہ کے تعلق سے اپنے ارادے اور عزم کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کل کربلا میں زلزلہ برپا کریں گے۔انکی جنگ دیکھ کر جبریل دنگ رہ جائےگا۔ ملک الموت مدہوش ہو جائےگا۔کل وہ اپنے گھوڑے کی ٹاپوں سے دشمنان امام حسین کی قبریں کھودیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر امام نے اجازت دی تو وہ اپنے ہاتھوں کو ہی تلوار بنا لیں گے۔
اپنے خطاب کے دوران ہی مولا عباس کو اطلاع ملی کہ دشمن کا ایک سپاہی خیام حسینی کی جاسوسی کرنے کے لئے آیا تھا۔ یہ سننے کے بعد حضرت عباس یزیدی لشکر کے پاس پہونچ گئے اور اسکو خبر دار کرتے ہوئےکہا کہ تمہارے اجداد نے شب ہجرت رسول کو قتل کرنے کے لئے انکے گھر کو گھیر لیا تھا لیکن وہاں سونے والے ہجرت کے علی کی وجہ سے گھر میں داخل نہیں ہوئے تھے تو لیکن آج انکی شکل میں عاشور کا علی موجو ہےد اور جاگ رہا ہے۔
امروہا کے مومنین کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ انہیں حضرت عباس کا یہ فصیح و بلیغ خطبہ مع معنیٰ و تشریح کے سننے کا موقع ملا۔اس مجلس میں سوز خوانی سید سبط سجاد اور انکے ہمنواؤں نے کی۔ نوگانواں سادات کی مہمان ماتمی انجمنوں نے بار گاہ سید الشہدا میں ماتم اور سینہ زنی کا نزرانہ پیش کیا۔
شب عاشور کے حضرت عباس کے اس خطبے کوایران کے روضہ خواں محمّدجعفر بن سلطان احمد کلیبری جو علامہ تبریزی کے نام سے مشہور ہیں نے اپنے فارسی مقتل’؛بحرالمصائب’ میں نقل کیا ہے۔ بیشتر شیعہ علما نے اس خطبے کو مستند نہیں گردانا ہے۔ یہ مقتل واقعہ کربلا کے تقریباً سات سو برس بعد تحریر کیا گیا۔ اس سے قبل کسی مقتل یا واقعات کربلا سے متعلق کسی کتاب میں حضرت عباس کے ایسے کسی خطبے کا ذکر نہیں ہے جو انہوں نے شب عاشور دیا ہو۔مکہ میں حضرت عباس کا خطبہ ملتا ہے مگر شب عاشور کا کوئی مفصل خطبہ نہیں ملتا صرف چند جملے ملتے ہیں جو بنی ہاشم کے جوانوں کو جوش شجاعت دلانے والے ہیں۔