کربلا کے غم میں چالیس برس تک خون کے آنسو رونے والے امام علی ابن الحسین کی شہادت کے موقع پر شہر کا ماحول دن بھر عزائی رہا۔ مختلف عزاخانوں میں امام سجاد، زین العابدین کی شہادت کے سلسلے میں مخصوص مجالس برپا ہوتی رہیں۔ ذاکرین نے بیمار کربلا پر گزرنے والے قیامت خیز مصائب بیان کئے۔ واقعہ کربلا کے بعد امام سجاد کے طرز زندگی، پیغام کربلا کو عام کرنے کے انکے طریقے اور دین پیغمبر کی تبلیغ کے لئے دعاؤں کو وسیلہ بنانے کے انکے اقدام پر ذاکرین نے روشنی ڈالی۔
۔شہر عزائے حسین امروہا کے مختلف عزاخانوں میں مخصوص مجالس عزا کے بعد امام سجاد کے تابوت کی شبیہیں برامد ہوئیں۔محلہ مجاپوتہ میں سید جعفر علی مرحوم کے مکان، عزاخانہ دربار شاہ ابو الحسن محلہ سٹھی اور محلہ سدو کے عزاخانے میں امام سجاد کی شہادت سے مخصوص مجالس کا اہتمام کیا گیا۔سید جعفر علی مرحوم کے مکان پر مجلس عزا سے مقامی ذاکر مولانا رضا علی نے خطاب کیا۔ یہاں تبارک علی اور انکے ہمنواؤں نے مرثیہ خوانی کی۔
مجلس کے بعد شبیہ تابوت برامد ہوئی ۔ علم اور تابوت کاجلوس مسجد مجاوالی میں اختتام پزیر ہوا۔ محلہ سٹھی میں مجلس عزا سے مہمان ذاکر مولانا عباس مہدی افتخاری نے خطاب کیا۔ اس مجلس میں مرثیہ خوانی اصغر حسین اور انکے ہمنواؤں نے کی۔ مجلس کے بعد شبیہ تابوت برامد ہوئی۔
۔ان تمام مجالس میں شہر کی ماتمی انجمنوں نے نوحہ خوانی اور سینہ زنی کی۔ مومنین نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے پنجتن علیہ السلام کی خدمت میں امام سجاد کا پرسہ پیش کیا۔ امام سجاد کی شہادت کے روز شہر میں متعدد مقامات پر خصوصی نزر کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
امام سجاد کی شہادت 25 محرم سن95 میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے ذریعے دئے گئے زہر کی وجہ سے ہوئی۔آپکی امامت کی مدت34 برس رہی۔شہادت کے وقت امام سجاد کی عمر مبارک57 برس تھی۔ اسی عمر میں انکے بابا امام حسین بھی کربلا میں شہید کئے گئے تھے۔
امام سجاد کی قبر مبارک مدینہ میں جنت البقیع میں ہے۔ اسی قبرستان میں انکے چچا امام حسن، فرزند امام محمد باقر اور پوتے امام جعفر صادق بھی زیر خاک ہیں۔ ایک روایت کے مطابق بی بی فاطمہ کی لحد مبارک بھی جنت البقیع میں ہی ہے۔