یزید ملعون اگر بیعت طلب نا بھی کرتا تب بھی نانا کے دین کی بربادی کودیکھتے ہوئے امام حسین کو قیام کرنا ہی تھا۔ مولانا ضمیر عباس جعفری نے امروہا میں ایک مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول کی وفات کے بعد امام حسین کا دور آتے آتے دین اسلام کی جو حالت ہو گئی تھی اسکے پیش نظر امام حسین میدان میں آنے کا ارادہ سن59 ہجری ہی میں کر چکے تھے۔
امام حسین نے اس دور میں موجود اہم ہستیوں اور اصحاب رسول کو حج کے موقع پر مدعو کیا تھا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ امر و نہی کے فریضے کو کیوں فراموش کر چکے ہیں۔امر و نہی اسی طرح واجب ہے جس طرح دیگر شرعی احکامات۔۔
علمدار علی کے عزاخانے میں جاری عشرہ اربعین کی ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ضمیر عباس نے کہا کہ
امر بالمعروف والنهي عن المنكر ترک کردینے کا ہی نتیجہ تھا کہ جمعہ کی نماز بدھ کو پڑھا دی گئی اور شراب کے نشے میں دھت حاکم نے صبح کی نماز چار رکعت پڑھا دی۔
مولانا ضمیر عباس نے کہا کہ امام حسین نے اپنے قیام کے جو مقاصد معین کئے تھے وہی مقاصد ہمارے بھی ہونا چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ماتمی اور عزائی جلوسوں سے لوگ متاثر کیوں نہیں ہورہے ہیں۔ ماتمی جلوسوں کا مقصد امام حسین کے پیغام، انکی شخصیت اور انکی سیرت سے لوگوں کو روشناس کرانا تھا لیکن آج ان ماتمی جلوسوں کا مقصد فوت ہو گیا ہے۔ ہم امام حسین کی سیرت اور انکی فکر کو لوگوں تک پہونچانے میں ناکام رہے ہیں۔
مولانا ضمیر عباس نے اس روایت کو بھی بے بنیاد قرار دیاکہ امام حسین نے ہندستان یا روم جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ مولانا نے کہا کہ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ امام حسین راہ فرار اختیار کرنے کو تیار تھے۔ وہ دین و ملت کی اصلاح ،امر و نہی کو رائج کرنے اور اپنے نانا رسول اللہ ﷺ اور اپنے بابا علی مرتضیٰ ع کی سیرت کو قائم کرنے کا تہیہ کر چکے تھے۔وہ بحیثت امام اپنی ذمہ داریوں کو ترک نہیں کرسکتے تھے۔اس عشرہ مجالس میں استاد حسن امام اور انکے ہمنوا سوز خوانی کر رہے ہیں۔