بیعت کی حقیقت اور اہمیت سے جتنا امام حسین واقف تھے اتنا ہی یزید بھی واقف تھا اگر یزید بیعت کی اہمیت سے واقف نہ ہوتا تو بر سر اقتدار آنے کے بعد سب سے پہلے اور شدت کے ساتھ امام حسین سے بیعت طلب نہ کرتا۔امروہا کے محلہ جعفری کے عزا خانے میں عشرہ مجالس کی پہلی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے مہمان ذاکر مولانا یوسف مشہدی نے بنی امیہ کی تاریخ کے ساتھ ساتھ بیعت کی حقیقت اور اہمیت پر روشنی ڈالی۔
مولانا یوسف مشہدی نے کہا کہ امام حسین نے یزید کی بیعت نہیں کرکے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کی محنت کو بچا لیا۔امام حسین نے یہ کہہ کر کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا اس جھوٹ کو بھی یکسر مسترد کردیا کہ مولا علی اور امام حسن نے اپنے اپنے دور میں کسی کی بیعت کی تھی۔عقلی دلائل کی بنیاد پر مولانا یوسف مشہدی نے ثابت کیا کہ یزید کا مطالبہ بیعت بنیادی طور پر ہی غلط تھا اور امام حسین بیعت سے انکار میں حق بجانب تھے۔
بیعت کے معنیٰ اپنے نفس کو کسی کے حوالے کردینے کےہوتے ہیں۔ بدلے میں بیعت کے طلبگار کو بیعت کنندہ کی کپڑے، روٹی اور مکان کی ضرورتوں کو اسکی حیثیت کے مطابق پورا کرنا ہوتا ہے۔ مولانا مشہدی نے کہا کہ یزید کی تمام دولت بھی امام حسین کی ان ضروریات کو پورا نہیں کرسکتی تھی۔ امام حسین وہ ہستی ہیں جنکے لئے لباس جنت سے آیا تھا۔ جنکے گھر کی روٹیاں فرشتے عرش پر لیکر جاتے تھے۔ جنکے گھر کا طواف ملائکہ کرتے تھے۔ جو جنوانان جنت کے سردار ہیں۔ یزید یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر امام حسین نے اسکی بیعت کرلی تو اسکا صریحی مطلب یہ ہوگا کہ اسکی ناجائز اور ظالم حکومت کو تمام انبیا کی تائید حاصل ہو جائےگی۔جس شدت سے یزید کا مطالبہ تھا اسی شدت کے ساتھ امام حسین کا انکار بیعت تھا۔
اس پہلی مجلس میں سوز خوانی حسن امام اور انکے ہمنواؤں نے کی۔ مجلس میں بڑی تعداد میں عزاداروں نے شرکت کی۔ مولانا یوسف مشہدی کا تعلق بنارس سے ہے۔ وہ اسی عزا خانہ میں بی بی فاطمہ کی شہادت کے سلسلے میں خمسہ مجالس سے خطاب کرچکے ہیں۔