جو افراد مجالس عزا میں شرک ہونے کا الزام لگاتے ہیں انہیں مولانا یوسف مشہدی نے مجلس میں شریک ہو کر ذاکر کا صرف تین منٹ کا خطبہ سننے کی دعوت دی ہے۔ مولانا مشہدی نے کہا کہ خطیب یا ذاکر کا تین منٹ کا خطبہ اس الزام کو مسترد کرنے کے لئے کافی ہیکہ شیعوں کے یہاں مجالس میں شرک ہوتا ہے۔اسی ذیل میں مولانا مشہدی نے ذاکرین کے ذریعےعربی میں دئے جانے والے خطبے کا ترجمہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ خطبہ کا آغاز خطیب یا ذاکر آئمہ اطہار کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سب سے پہلے اللہ کی توحید کی گواہی دیتا ہ ہے اور پھر پروردگار عالم کی توحمد و ثنا کرتا ہے۔اسکے بعد رسول اکرم پر درود و سلام بھیجنے کے ساتھ انکی مدح ثنا کرتا ہے۔ خطبہ اس مقام پر نہیں رکتا بلکہ اسکے بعد آل رسول پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔ انکی فضیلت بیان کرنے کے بعد انکے دشمنوں پر لعنت ملامت کی جاتی ہے۔
مولانا مشہدی نے امام حسین کے اس جملے کی کہ ، ‘مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا’ کوتشریح کے ساتھ بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ولید کے دربار میں جب امام کو طلب کرکے یزید کی بیعت طلبی کا پیغام دیا گیاتب انہوں نے فصاحت و بلاغت سے مزین نو جملے ارشاد فرمائے جن میں سے پانچ میں اپنا تعارف اور تین جملوں میں یزید نحس کا تعارف کرایا۔ نو جملوں پر مشتمل امام کے اس فصیح خطاب کا آخری جملہ یہ تھا کہ ‘ان ‘جیسا’ اس’ جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔امام عالی مقام نے بتایا کہ وہ اہل بیت نبوت ہیں۔ رسالت کی کان کی ہیں۔انکے اوپر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ملائکہ کا انکے گھر پر آنا جانا ہے اور دوسری طرف یزید ہے جو شرابی ہے، کھلے عام فسق و فجور کرتا ہے۔ اور بے گناہوں کا قاتل ہے۔ بھلا ان جیسا اعلیٰ مرتبت اور با فضیلت شخص یزید جیسے ذلیل و پلید کی بیعت کس طرح کرسکتا ہے۔
مولانا مشہدی نے ذاکرین کے ذریعے دئے جانے والے عربی خطبہ کا اردو متن پیش کرکے مومنین کی تشنگی کو دور کردیا۔ عام طور سے ذاکرین عربی خطبہ کا ترجمہ کرنے سے گریز ہی کیا کرتے ہیں۔
اس دوسری مجلس میں سوز خوانی تنویز حسن نقوی اور ہمنواؤں نے کی۔ مجلس میں بڑی تعداد میں عزاداروں نے شرکت کی۔ مولانا یوسف مشہدی کا تعلق بنارس سے ہے۔ وہ اسی عزا خانہ میں بی بی فاطمہ کی شہادت کے سلسلے میں خمسہ مجالس سے خطاب کرچکے ہیں۔