
فن کوئی بھی ہو انسان کو ودیعت اللہ ہی کرتا ہے۔اب یہ اس انسان کے اوپر ہیکہ وہ اپنے اندر چھپے ہوئے اس خداد داد فن کو پہچانے،اسے نکھارے اور سنوارے۔ ہر فن کے نکھارنے اور سنوارنے کے لئے مشق، صحیح رہنمائی اور ڈپلوما،سرٹی فکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کچھ فنکار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں اپنے فن کو نکھارنے کے لئے کسی ڈپلوما اور سرٹی فکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔وہ اپنے اندر پوشیدہ خداداد صلاحیت کو بہت جلدی پہچان لیتے ہیں اور مشق کرکے اسکو نکھارتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں رہنمائی اور اصلاح کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن وہ رہمائی اوراپنے فن کی اصلاح کے لئے دنیاوی سہاروں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ روحانی وسیلوں سے رہنمائی اور اصلاح حاصل کرتے ہیں۔ایک ایسے ہی فنکار امروہا کےحسین امام ہیں، جو خطاطی اور خوش نویسی کی خداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ انہوں نے فن خطاطی سیکھنے کے لئے نہ کوئی ڈپلوما کورس کیا نہ فائن ارٹ کے کسی ادارے سے کوئی ٹریننگ لی۔

حسین امام دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اصلاح اور رہنمائی مولا علی مشکل کشا کی جانب سے عطا ہوتی ہے۔خطاطی کا فن پارہ تیار کرنے کے بعد وہ دل ہی دل میں مولا علی سے رجوع کرتے ہیں اور پھر اپنے فن پارے پر ناقدانہ اندازسے نظر ڈالتے ہیں۔ بیشتر موقعوں پر ایسا ہوتا ہیکہ جس فن پارے کو وہ مکمل اور بے عیب تصور کررہے تھےمولا علی سے توسل کے بعد انہیں اسی فن پارے میں کوئی خامی اور کچھ کمی نظر آنے لگتی ہے اور وہ اسکی تصحیح کرلیتے ہیں۔
حسین امام کے فن کے بارے میں تفصیل سے بات کرنے سے پہلے آئیے یہ معلوم کرتے ہیں کہ حسین امام کا پس منظر کیا ہے۔

حسین امام امروہا کے محلہ مچھرٹہ کے عزاخانے کے متولی ہیں۔چار محرم کا عزائی جلوس اسی عزا خانے سے برامد ہوتا ہے۔ یہ عزاخانہ پولیس کوتوالی کے عقب میں واقع ہے۔21 مارچ1966 میں پیدا ہونے والے حسین امام کے والد نہال حسین محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ 6 برس کی عمر سے ہی حسین امام خطاطی اور خوش نویسی کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ کیونکہ وہ فن انہیں ورثہ میں ملا ہے۔ انکے دادا یعقوب حسین کے بڑے بھائی ایوب حسین بھی ماہرخوش نویس تھے۔ تایا جمال حسن بھی معروف خوش نویس تھے۔حسین امام بچپن سے ہی عالمی شہرت یافتہ خطاط اور مصور صادقین سے متاثر رہے ہیں۔۔ صادقین کے فن کا نمونہ انہیں جہاں کہیں بھی نظر آتا تھا وہ اسکو گھنٹوں دیکھا کرتے تھے اور دل ہی دل میں یہ تمنا کرتے تھے کہ کاش وہ بھی اسی انداز کی خطاطی کرسکیں۔خطاطی اور خوش نویسی کی ابتدا انہوں نے رباعی، قطعہ، نوحہ اور سلام لکھنے سے کی۔ وہ مختلف شعرا کے کلام کو عمدہ سے عمدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ مشق کرتے کرتے انکی خطاطی میں نکھار آتا چلا گیا۔

نہوں نے خطاطی کے مختلف Styles کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ان Styles کی مشق کی۔ صادقین کے خطاطی کے نمونوں کو اپنے طریقے سے لکھنے کی کوشش کی۔ حسین امام صادقین سے متاثر ضرور ہیں لیکن انکی نقل نہیں کرتے۔ ہمیشہ ان سے مختلف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حسین امام اب تک ہزاروں فن پارے تیار کر چکے ہیں۔حسین امام ‘بسم اللہ الرحمان الرحیم ‘کو تین سو سے زیادہ طریقوں سے لکھ چکے ہیں۔ انہیں قرآن مجید کی مختلف آیتوں کو مختلف Styles میں لکھنے کا شوق ہے۔انہیں مرثیوں کو بھی خوبصورتی کے ساتھ لکھنے کا ہنر آتا ہے۔ حسین امام کا کمال یہ ہیکہ وہ عربی زبان سے کما حقہ واقف نا ہونے کے باوجود قرآنی آیات کو صحیح ہجے۔ اعراب اور انکی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ صحیح صحیح لکھ لیتے ہیں۔ انہوں نے قرآن پڑھنے کے علاوہ باقاعادہ عربی کی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ قرآنی آیات کی صحیح صحیح خطاطی کرلینے کو بھی وہ مولا علی کی رہنمائی کا نتیجہ مانتے ہیں۔

امروہا میں کثرت سے پڑھے جانے والے ایک تاریخی مرثیہ کو انہوں نے 18اسٹائلز میں لکھا ہے۔ شہیدان کربلا کے چہلم کے روز امروہا میں چھنو لعل دلگیر لکھنوی کا نظم کردہ مرثیہ’قید سے چھوٹ کے جب سید سجاد آئے’پڑھا جاتا ہے۔ یہ مرثیہ ساٹھ بندوں پر مشتمل ہے۔ حسین امام نے اس مرثیہ کے بندوں کو ‘خط ریحان’، ‘خط رقعہ’، ‘خط مستطیل’، ‘خط توقیع’، ‘خط معمائی’ ،’خط شکستہ’۔ ‘خط نستعلق’،’خط تعلیق’، ‘خط حلزونی’ خط ثلث ‘خط آرائش’ ، ‘خط عمودی’،’خط اجازہ’،’خط افقی’، ‘خط دیوانی’ اور’خط منکسر’،سمیت 18 طریقوں سے لکھا ہے۔ہر بند کے پس منظر میں بھی کسی امام کا اسم گرامی یا اس بند کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔

چہلم کے جلوس تعزیہ میں یہ مخصوص مرثیہ استاد حسن امام اور سبط سجاد اور انکے ہمنوا پڑھتے ہیں۔ اس مرثیہ کو خوش خط انداز میں حسین امام نے لکھ کر سوز خواں سبط سجاد کو پیش کیا۔ خوش خطی کے ساتھ مرثیہ لکھنے کا ہدیہ یہ ٹہرا کہ سبط سجاد نےاس مرثیہ کو کربلا معلیٰ کے مقدس روضوں سے مس کرایا اور ہر برس چہلم کے بعد انکے عزا خانے میں اپنے ہمنواؤں کے ساتھ اسی مرثیہ کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔


خاص بات یہ ہیکہ حسین امام نے خطاطی اور خوش نویسی کے اپنے فن کو روز گار کا ذریعہ نہیں بنایا ہے۔ وہ بغیر کسی اجرت کے لوگوں کی فرمائش پر طغرے،کتابوں کے ٹائٹل، دعوت نامے وغیرہ تیارکرتے ہیں۔ ہدیہ دینے کی ضد کرنے والوں سے وہ یہ کہہ دیتے ہیں عزاخانے کے لئے کسی شے کا بندوبست کردیں۔ اپنے فن کو تجارتی مقصد کے لئے استعمال نہیں کرنے کی حسین امام دو ٹھوس وجوہات بیان کرتے ہیں۔ انکا کہنا ہیکہ وہ آیات قرآنی کے طغرے اور خطاطی کے نمونے تیار کرتے ہیں اور آیات قرآنی بیش قیمت ہیں۔ وہ انکی قیمت نہ معین کرسکتے ہیں اور نہ وصول کرسکتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہیکہ یہ فن اللہ نے انہیں اپنے کرم سے بطور امانت عطا کیا ہے اور وہ دنیا والوں سے اسکی قیمت وصول کرکے امانت میں خیانت نہیں کرسکتے۔حسین امام خطاطی میں نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔انہیں کوئی فن پارہ تیار کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ۔ انکا ذہن خاکہ تیار کرتا ہے اور ہاتھ کی جنبش قرطاس پر خوبصورت نقش و نگار ابھار دیتی ہے۔حسین امام کی خواہش ہیکہ ذوال پزیر اس فن کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہیکہ نوجوان اس فن کو سیکھیں۔حسین امام نوجوانوں کو اس فن کی باریکیاں اور گر سکھانے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔