
قرآن میں نبیوں اور رسولوں کے ایسے درجنوں واقعات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے اللہ کی راہ میں مصیبتیں برداشت کرنے والوں کی اللہ مدد کرتا ہے۔ امروہا میں جامعہ ہدیٰ میں ‘تاریخ اسلام کا بیان’ کے عنوان سے خطبہ دیتے ہوئے مولانا ڈاکٹر شہوار نقوی نے اللہ کی وحدانیت منوانے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جناب ابراہیم نے اس دور میں اللہ کی وحدانیت کا پرچار کیا جب پورا معاشرہ بت پرستی سے آلودہ تھا۔ جناب ابراہیم کی پوری زندگی اللہ کی راہ میں صعوبتیں اور مشکلات برداشت کرنے سے عبارت ہے۔انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ انہیں مصیبتوں کے مقابلے میں اللہ کی ذات پر مکمل بھروسا اور یقین کامل تھا۔

مولانا شہوار نے اس واقعہ کا بھی ذکر کیا کہ جب جناب ابراہیم نے مشرکین کے عبادت خانے میں موجود تمام بتوں کو توڑ دیا تھا۔ جسکی سزا انہیں یہ دی گئی کہ انہیں بھکڑتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پھینک دیا گیا۔ اس موقع پر بھی انہوں نے اللہ کی ذات میں کامل یقین کا اظہار کیا۔ اپنی ذات میں جناب ابراہیم کے مکمل اعتماد کو دیکھتے ہوئے اللہ نے بھڑکتی ہوئی آگ کو یہ حکم دیا کہ ‘یا نارو کونی برداً و سلاماً عًلیٰ ابراہیم’ یعنی اے آگ سامتی کے ساتھ ابراہیم کے لئے سرد ہو جا۔ ‘یا نارو کونی برداً و سلاماً عًلیٰ ابراہیم’ کے بارے میں علما کا کہنا ہیکہ اسکا ورد غصہ، ضد اور بخار کم کرنے میں بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔

جناب ابراہیم نے اللہ کی راہ میں اپنی ثابت قدمی ظاہر کرتے ہوئے جو صعوبتیں برداشت کیں انکا ہی یہ ثمر تھا کہ اللہ نے انکو اپنا دوست کیا اور انسانوں کا امام بنایا۔ خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کرنے کا اعزا ز بھی جناب ابراہیم اور انکے فرزند جناب اسماعیل کے حصے میں آیا۔جناب ابراہیم نے اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اسکے حکم پر اپنے فرزند جناب اسماعیل کو ذبح تک کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
ترکی میں ارفا Urfa نامی ایک مقام کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں نمرود نے جناب ابراہیم کو آگ میں پھنکوایا تھا۔ اس مقام پر پانی کا ایک تالاب ہے۔ جبکہ بعض روایات میں آیا ہیکہ جناب ابراہیم کی ولادت اور شعلوں کے حوالے کرنے کا واقعہ جنوبی عراق کے Ur مقام پر ہوا تھا۔