چار بڑی پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا ہے۔اس طرح امروہا میں اسمبلی انتخاب کی بساط بچھ گئی ہے۔ سماجوادی پارٹی نے اپنے سٹنگ ایم ایل اے محبوب علی پر ہی اس بار بھی داؤ کھیلا ہے۔ کانگریس نے بھی اپنے گزشتہ امیدوار سلیم خاں کی امیدواری کو برقرار رکھا ہے۔ بی جے پی نے رام سنگھ سینی کو امیدوار بنایا ہے وہ دوسری بار امروہا سے انتخاب لڑیں گے۔ بی ایس پی نے نوید ایاز کو ٹکٹ دیا ہے۔ نوید ایاز کی قابلیت یہ ہیکہ وہ چار مرتبہ ایم یل اے رہے حاجی حیات کے بھتیجے ہیں۔اس طرح بی جے پی سے مقابلے کے لئے تین مسلم امیدوار میدان میں اتر چکے ہیں۔ کاغزات نامزدگی داخل ہونے کے بعد مسلم امیدواروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایک طرح سے مسلم ووٹوں کی تقسیم سے بی جے پی کی جیت کی راہ ہموار ہونے کا امکان زیادہ مضبوط ہوگا۔
محبوب علی پانچویں مرتبہ قسمت آزما رہے ہیں۔ جیتنے کے لئے انہیں سخت مقابلے سے گزرنا ہوگا۔عوام کو ان سے شکایتیں بھی کم نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی سخت ضرورت کے وقت محبوب علی موقع سے ندارد ہی رہے ہیں۔ جب بھی کسی معاملے میں مسلم نوجوان گرفتار کئے گئے یا انہیں مقدموں کا سامنا کرنا پڑا تب تب محبوب علی اور انکے ایم ایل سی فرزند پرویزکا کچھ اتا پتا نہیں ہوتا تھا۔ درگاہ شاہ ولایت اور باسو دیو پارک کی تزئین کاری کےلئے بجٹ مختص کرانے کو محبو ب علی اپنا بڑا کارنامہ بھلے ہی قرار دیتے ہوں لیکن عوام کو اس سے کوئی فائداہ نہیں ہوا۔ عام آدمی اس سے متاثر نہیں ہونے والا۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہیکہ مسلمانوں کا رجحان اکھیلیش یادو کی جانب ہے اسکا فائدہ محبوب کو ضرور مل سکتا ہے
کانگرس کے سلیم خاں گزشتہ چناؤ میں چودہ ہزار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے انہیں اعلیٰ ذات کے مسلمانوں کی حمایت پہلے بھی ملی تھی اب بھی ملنے کی امید ہے۔عوام کے سامنے ابھی تک انکا مخلص سماجی خدمت گار کا چہرہ نہیں آیا ہے۔
الیکشن سے قبل انکے چہرے والے پوسٹروں سے شہر بھر کی دیواریں ضرور پٹ گئی تھیں۔ انہوں نے موجودہ ایم ایل اے سے سوالات بھی کئے تھے۔خود ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جو سوال انہوں نے محبوب علی سے کئے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے وہ کیا کریں گے۔
جہاں تک نوید ایاز کا تعلق ہے وہ بی ایس کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں۔ وہ کچھ روز پہلےچندر شیکھر آزاد کا بھی دامن تھام چکے ہیں۔ان سے یہ سوال کیا جارہا ہیکہ وہ وہاں کیوں گئے تھے اور کیوں چھوڑ کر آگئے۔ جہاں تک عوام کی خدمت کا معاملہ ہے امروہا والوں کے سامنے نوید ایاز کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے۔ امروہا کا مسلم معاشرہ بھی کئی ذات برادریوں کے خانوں میں تقسیم ہے۔ مسلم ووٹ کس کے کھاتے میں زیادہ جائےگا اسی کے سر جیت کا سہرا بندھےگا۔ لیکن اگر نگر پالیکا پریشد کے صدر کے چناؤ کا سا حشر ہوا تو امروہا کی سیٹ بی جے پی کے اکاؤنٹ میں جانے سے کوئی روک نہیں سکےگا۔دانش مند لوگوں کا تو کہنا یہی ہیکہ مسلم ووٹروں کو tactica ووٹنگ کرنی ہوگی یعنی اس امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہئے جو بی جے اپی امیدوار کو ہرانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ فیصلہ اکثر ووٹنگ کے دن ہی ہوتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔