بنی امیہ نے نہایت منظم سازش کرکے اہل بیت رسولﷺ کے فضائل کو چھپایا تاکہ عوام انکے قریب نہ جا سکیں۔ اس سازش کا مرکز شام رہا جو سن چودہ ہجری سے اموی خاندان کے زیر اقتدار رہا۔عزاخانہ محلہ جعفری میں جاری عشرے کے تیسری مجلس سے خطاب کرتے ہوئے مہمان ذاکر مولانا یوسف مشہدی نے کہا کہ دوسری خلافت کے دور میں معاویہ ابن ابو سفیان کو شام کا گورنر بنایا گیا تھا۔43 برس کے اقتدار میں امیر شام نےمختلف حربے استعمال کرکے عوام کو اہل بیت رسول سے اتنا دور کردیا کہ لوگ اہل بیت کو جادو گر سمجھنے لگے تھے۔ منبروں سے مولا علی کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ حالت یہ ہو گئی تھی کہ جب مسجد کوفہ میں مولا علی کی شہادت کی خبر دمشق پہونچی تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ علی مسجد میں کیا کررہے تھے۔قرآن کی تفسیر بیان کرنے سے روکا جاتا تھا کہ لوگ اہل بیت رسول کی فضیلت سے واقف نہ ہو سکیں۔ اہل بیت کے فضائل بیان کرنے والوں کو ظلم و ستم کانشانہ بنایا جاتا تھا۔
مولانا مشہدی نے اغیار کے اس الزام کو بھی اہل سنت کی کتابوں اور تاریخی حوالوں سے جھوٹ اور افترا ثابت کیا کہ امام حسین کو کوفہ کے شیعوں نے ہی خط لکھ لکھ کر بلایا تھا اور شیعوں نے ہی کربلا میں انکو شہید کیا۔مولانا نے بتایا کہ اس دور میں لفط شیعہ عام طور سے دو گروہوں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ شیعان ابوسفیان اور شیعان علی ابن ابیطالب۔امام حسین کو کوفہ کے جن اٹھارہ ہزار افراد نے خط لکھے تھے وہ شیعان ابو سفیان تھے اور وہی کربلا میں امام حسین اور انکے ساتھیوں کو شہید کرنے میں پیش پیش تھے۔
مولانا مشہدی نےتفصیل کے ساتھ وہ اسباب بھی بیان کئے کہ جنکی وجہ سے رسول اللہ کی وفات کے محض پچاس برس کے اندرمکہ،مدینہ کوفہ اور شام کے مسلمان اہل بیت سے اتنا دور ہو گئے کہ رسول کی بیٹی کو انکے حق سے محروم کیا گیا۔ انکے گھر کو آگ لگائی گئی۔ مولا علی ، امام حسن اور امام حسین کو رسول کا کلمہ پڑھنے والوں نے شہید کرڈالا۔مولانا مشہدی نے کہا کہ ہمیں نئی نسل کو اہل بیت اطہار کے فضائل اور مناقب سے زیادہ سے زیادہ واقف کرانا چاہئے۔ منبروں سے اگر فضائل اہل بیت بیان نہیں کئے گئے تو آئندہ بیس پچیس برس میں نئی نسل کے لوگ آل محمد سے اسی طرح دور ہو جائیں گے جس طرح بنی امیہ کی سازشوں کے نتیجے میں اس دور کے مسلمان دور ہو گئے تھے۔