امریکی حکومت بہت پریشان ہے۔ اسکی سمجھ میں نہیں آرہا ہیکہ یونیورسٹیوں کے طلبا میں غزہ کی حمایت کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کیسے قابو کرے۔ حالت یہ ہیکہ طاقت کے بل پر طلبا کے ان مظاہروں کو روکنے کی کوششیں بھی ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہوئے یہ مظاہرے اب ملک اور دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں تک پھیل چکے ہيں۔ پندرہ امریکی یونیورسٹیوں کے کم از کم نو سو افراد کو گزشتہ دس دنوں میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے احتجاجی طلبا کو بری طرح سے زد و کوب کیا اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے- ان مظاہروں میں متعدد طلباء اور فیکلٹی ممبران کو گرفتار کیا گیا ہے۔
فلسطینیوں کی حمایت میں شدت کا یہ عالم ہیکہ صدارتی انتخاب کی ایک نامزد امیدوار بھی احتجاج میں شامل ہو گئیں جنہیں پولیس نے دیگر مظاہرین کے ساتھ گرفتار کرلیا۔ گرین پارٹی کی امریکی صدارتی امیدوار جِل اسٹین ہفتے کے روز واشنگٹن یونیورسٹی میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج میں شامل ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا ہیکہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور نسل کشی کے خاتمے کے لیے کھڑے طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہیں۔۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں مظاہرین نے اس یونیورسٹی کے بانی کےمجسمے کے اوپر سے امریکی پرچم ہٹا کر فلسطین کا پرچم لہرا دیا۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے طلباء ، غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی اور تل ابیب کے لیے واشنگٹن کی امداد بندکئے جانے کے مطالبے کے ساتھ ہی غزہ کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے فلسطینی پرچم ایک گھنٹے تک لہراتے رہے۔
امریکی پولیس کے ہاتھوں ان مظاہروں کو کچلنے اور بڑی تعداد میں طلبہ کو گرفتار کرنے کے باوجود اس تحریک کا دائرہ کولمبیا یونیورسٹی سے امریکہ کی دیگر یونیورسٹیوں جیسے نیویارک ، ہارورڈ ، ییل ، ٹکزاس اور جنوبی کیلفورنیا تک پھیل گيا ہے اور اب امریکہ سے دیگر مغربی ملکوں فرانس، جرمنی ، کینیڈا ، برطانیہ اور آسٹریلیا تک میں اس طلبا تحریک کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے۔