آغا حشر کا پورا نام آغا محمد شاہ تھا ۔وہ بنارس میں آغا محمد غنی شاہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ان کے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے بنارس میں آباد ہوئے تھے ۔ آغا حشر کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے سلسلے میں اختلافات ہیں۔لاہور میں انکی قبر کے کتبے پر انکی تاریخ وفات یکم اپریل 1935 درج ہے۔ انکی تاریخ پیدائش 3 اپریل 1879 مشہور ہے۔
ڈاکٹر مسز شمیم ملک کے تحقیقی مقالہ “آغا حشر کاشمیری حیات و کارنامے” میں چار صفحات پر تو صرف آغا حشر کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش پر ہی بحث کی گئی ہے۔معاملہ جو بھی ہو اب آغا حشر کو دنیا سے کوچ کئے 88 برس بیت چکے ہیں مگر ان کا نام آج بھی ان کی بے مثالی ڈرامہ نگاری کی بدولت زندہ ہے۔
آغا حشر کا گھرانہ مذہبی تھا چنانچہ ان کے والد اور نانا نے انکی تربیت خالصتا اسلامی ماحول میں کی ۔آغا حشر کو ناظرہ قرآن پاک کے علاوہ سولہ سپارے بھی حفظ تھے ۔ تعلیم بنارس کے مقامی تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری اور موسیقی میں دلچسپی کے سبب اعلٰی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ شاعری میں دلچسپی کے سبب والد سے چھپ کر مشاعروں میں شامل ہوتے اور خوب داد سمیٹتے تھے۔ آغا حشر کاشمیری کی زندگی کا زیادہ عرصہ لکھنو ، بمبئی اور لاہور میں گزرا۔ ان کے قریبی دوستوں میں مولانا ابوالکلام آزاد، خواجہ حسن نظامی ،مولانا ظفرعلی خاں ، مولانا عبدالمجید سالک ،مولانا تاجورنجیب آبادی اور مولانا چراغ حسن حسرت شامل تھے ۔آغا حشر ایک بلند پایہ ڈرامہ نویس ہی نہ تھے بلکہ فلسفی ،شاعر ،بہترین مصور اور با اثر مقرر اور ممتا ز ادیب بھی تھے ۔بمبئی میں قیام کے دوران وہ عیسائیوں اور آریہ سماج کے پیروکاروں سے مناظرے اور مباحثے کرتے رہے۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان معاشرتی ،تہذیبی اور سیاسی اعتبار سے زوال پذیر تھے ۔اس مشکل وقت میں آغاحشر ، مولانا ابوالکلام آزاد، نظیرحسین سخااور خواجہ حسن نظامی نے مل کر ایک انجمن بنائی ۔جس کا نام “انجمن نصرت اسلام”رکھا۔یہی وہ مضبوط محاذ تھا جس کے سامنے بڑے بڑے پادری اور مبلغ نہ ٹھہر سکے ۔اس انجمن نے “البلاغ ” کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ بھی جاری کیا ۔ابوالکلام آزاد اور آغا حشر اس رسالے کو مرتب کرتے تھے۔
لاہور میں قیام کے دوران انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں نظمیں پڑھتے رہے ۔آغا حشر کی زندگی کا ابتدائی حصہ ڈرامہ نویسی میں ہی بسر ہوا۔یہی ان کا محبوب مشغلہ رہا اور یہی پیشہ انہوں نے تمام عمر اختیار کیے رکھا۔انہوں نے پہلا ڈرامہ “آفتاب محبت”لکھا ۔یہ ڈرامہ بنارس کے ایک معروف جریدے میں1897ء میں شائع ہوا۔اس کے بعد انہوں نے “مرید شک”ڈرامہ لکھا جس کا پلاٹ شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے winters Taleسے ماخوذ تھا۔یہ ڈرامہ 1899ء میں سٹیج کیا گیا ۔اس دوران آپ سٹیج ڈرامہ سے متعلقہ کئی کمپنیوں کی جانب سے ڈرامے لکھتے رہے جو آپ کی مقبولیت کا باعث بنے۔1912ء میں آپ لاہور چلے آئے۔ان دنوں لاہور علم و ادب کا گہوارہ بن چکا تھا ۔اردو کی ترقی و ترویج کے لیے مختلف انجمنیں سرگرم عمل تھیں جن میں انجمن حمایت اسلام ،بزم اردو اور بزم سخن خاص طور پر قابل ذکر تھیں ۔آغا حشر بھی انہی تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہوگئے ۔1914ء میں بیوی کے انتقال کے بعدآپ ایک بار پھر کلکتہ چلے گئے۔بعدازاں آپ نے فلموں کی کہانیاں بھی لکھنا شروع کردیں۔
اپنی عمر کے آخری حصے میں آغا حشر کاشمیری فلم نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے ڈرامے ‘بھیشم پرتگیا’ کو فلمانے لاہور چلے گئے۔ مگر اپنی پہلی فلم کے مکمل ہونے سے قبل ہی 28 اپریل 1935 کو لاہور میں وفات پا گئے۔ آغا حشر کاشمیری لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں مد فون ہیں۔
مرید شک ،مار آستین ،اسیرحرص ، میٹھی چھری عرف دورنگی دنیا ، ٹھنڈی آگ ،شہید ناز عرف اچھوتا دامن ،سفید خون ،صید ہوس ،خواب ہستی عرف داؤ پیچ ،خوبصورت بلا،سلورکنگ عرف نیک پروین ،پہلا پیار،بن دیوی،یہودی کی لڑکی ،بلوامنگل عرف سورداس ،شیرکی گرج عرف نعرہ تکبیر،مدھر مرلی ،بھگت گنگا،عورت کا پیار،ہندوستان،ترکی حور،آنکھ کا نشہ،سیتابن باس،بھیشم پرتگیا،دھرمی بالک،عرف غریب کی دنیا،بھارتی بالک عرف سماج کا شکار، دل کی پیاس اور رستم و سہراب کے ڈراموں کے خالق بھی آغا حشر کاشمیری ہی تھے۔آغا صاحب نے “نیک پروین” کے نام سے ہنری آتھر جونز اور ہنری ہرمن کے مشہور میلو ڈرامہ ” دی سلور کنگ” کو اردو زبان میں لکھا۔ آغا حشر کاشمیری پہلے مسلم ڈرامہ نگار تھے جنہیں بنارس ہندو جامعہ کی جانب سے سونے کے تمغے سے نوازا گیا۔ آغا حشر کو یہ تمغہ برصغیر کے تھیٹر میں انکی بے مثال اور بھرپور کاوشوں کی بدولت دیا گیا.
ڈراما نگار ہونے کے ساتھ ساتھ آغا حشر قادر الکلام شاعر بھی تھے، حتیٰ کہ مشاعروں میں علامہ اقبال بھی ان کے بعد احتراماً اپنا کلام نہیں پڑھتے تھے۔ آغاحشر کی کئی غزلیں آج بھی شوق سے گائی اور سنی جاتی ہیں:
چوری کہیں کھلے نہ نسیمِ بہار کی
خوشبو اڑا کے لائی ہے گیسوئے یار کی
یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
بھولنے والے کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں؟
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب سے اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے
۔۔۔
اردو ادب کے اس نا بغہ روزگار صاحب قلم پر جتنا کام اردو اسکالرز کو کرنا چاہئے تھا اتنا نہیں ہوا ہے۔