امریکہ کی اقتصادی دہشتگردی کے نتیجے میں افغانستان میں غذائی اشیا اور دواؤں کی شدید قلت ہے۔ جسکا نتیجہ یہ ہورہا ہیکہ بچوں کی اموات میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بہانے اس ملک کے تقریبا دس ارب ڈالر کی رقم روک لی ہے اور اس رقم میں سے کچھ حصہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے ہلاک شدگان کے لواحقین کو بطور تاوان ادا کرنے کے لئے ضبط کرلیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے یہ اقدام ایسی حالت میں عمل میں لایا گیا ہے کہ افغان عوام کے لئے امداد منقطع ہونے یا اس کی ترسیل میں آنے والی کمی کی بنا پر افغانستان میں شدید معاشی بحران پیدا ہو گیا ہے اور صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
دریں اثںا افغانستان میں بچوں کی شرح اموات میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے ۔
افغانستان کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ سن دو ہزار بائیس کے آغاز کے بعد سے اب تک تقریبا تیرہ ہزار سات سو نوزائیدہ بچے اور پیدائش کے وقت چھبیس حاملہ خواتین کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
افغانستان کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی مہینوں میں پیدا ہونے والے ایک لاکھ چوبیس ہزار آٹھ سو بچوں میں سے تقریبا گیارہ فیصد بچے پیدا ہونے کے بعد فوت ہو گئے۔
افغانستان کے طبی اور محکمہ امیگریشن کا کہنا ہے کہ یورپ و امریکہ کے منفی پروپیگنڈے کی بنا پر بہت سے طبی ماہرین اور ڈاکٹر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
افغانستان کو نہ صرف دواؤں بلکہ طبی عملے کی بھی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی بنا پر حفظان صحت کے تعلق سے شدید مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ بچوں اور ماؤں کی اموات کی شرح کے لحاظ سے افغانستان کا شمار ایشیا میں پہلے نمبر پر ہوتا ہے اور یہ شرح نہایت افسوسناک ہے۔
کچھ عرصے قبل اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے نے بھی ایک رپورٹ میں افغانستان میں بچوں کی پیدائش کے وقت بچوں اور ماؤں کی بڑھتی اموات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ان سب مسائل و مشکلات اور اسی طرح بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے انتباہات اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی اپیل کے باوجود امریکہ افغانستان کے اثاثے اور رقم واپس کرنے سے انکار کر رہا ہے۔