چار سے پانچ ہزار افغانی روزانہ ایران میں داخل ہورہے ہیں۔ یہ سلسلہ اگست میں اس وقت شروع ہوا تھا جب طالبان افغانستان میں بر سر اقتدار آئے تھے۔ ناروے کی رفیوجی کونسل آین آر سی کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک تین لاکھ افغانی ایران میں داخل ہو چکے ہیں۔ آین آر سی نے پناہ گینوں کے بوجھ تلے دبے ایران کی عالمی پیمانے پر مدد کی اپیل کی ہے۔کیونکہ ایران عالمی پابندیوں کی وجہ سے پہلے سے ہی معاشی تنگی کاشکار ہے.
آین آر سی کے سکریٹری جنرل جان ا یگلینڈ نے ایک بیان میں کہا ہیکہ
نہایت کم عالمی دد کے سہارے ایران اتنا بڑا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ جان ایگلینڈ کے مطابق سخت موسم سرما آنے سے قبل افغانستان کے اندر اور ایران جیسے ہمسایہ ملکوں میں امداد میں فوری اضافہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔طالبان کی فتح کے بعد اچانل عالمی امداد کے بعد ہوجانے اور افغان سینٹرل بینک کے اثاثے منجمد کئے جانے سے افغانستان کی معاشی حالت ابتر ہو گئی ہے۔ جسکی وجہ سے 2015 کے جیسا رفیوجی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے
۔2015 میں شام کے حالا ت سے مجبور ہوکر شام سے ہجرت کرنے والوں کا ایک سیلاب امنڈ پڑا تھا۔ جس نے یورپ کو ہلا کرکھ دیا تھا۔اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہیکہ 22.8 ملین افراد کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔یہ تعداد افغانستان کی مجموعی آبادی کی نصف سے زیادہ ہے۔