
الہ باد ہائی کورٹ کے جسٹس منوج مشرا و جسٹس جینت بنرجی نے ضمیر نقوی و شاداب عابدی کی رٹ پٹیشن پر یو پی سرکار سے جواب مانگا ہے کہ جب پچھلے کئی سالوں سے اوقاف کا آڈٹ ہی نہیں ہوا تو شیعہ وقف بورڈ کا الیکشن وقف ایکٹ 1995 کی دفع 14 کے تحت کیسے کرایا جائے گا۔ وقف ایکٹ کی دفع 14 کی شق جسکے تحت ایک لاکھ روپے سے زاید آمدنی والے وقف کے دو متولی آپسی متولیوں کے بیچ چناو سے بورڈ کے ممبر ہو سکتے ہیں۔ جب کی پچھلے کئی سالوں سے اوقاف کی آڈٹ رپورٹ ہی نہیں تیار کی گئی ہے جس سے یہ طے ہو سکے کہ ایک لاکھ روپے سے زاید آمدنی والے اوقاف کتنے اور کون سے ہیں۔

جبکہ سالانه آڈٹ وقف ایکٹ کی دفع 46 و 47 کے تحت ضروری عمل ہے۔ وقف بورڈ نے ضمیر نقوی کو انکے آر ٹی آئ کے جواب میں بتایا تھا کہ پچھلے کئی سالوں سے آڈٹ کا عمل وقف بورڈ میں ہوا ہی نہیں۔ اسی بنا پر سینئر ایڈووکیٹ سید فرمان احمد نقوی نے عدالت کے سامنے یہ بحث کی کہ جب سالانہ آڈٹ ہی نہیں ہوا تو ایسے میں یہ پورا الیکشن ہی غلط بنیاد پر کیا جا رہا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔