انتخابی موسم کو قریب دیکھ کر سیاسی پارٹیوں نے اتر پردیش و پنجاب جیسی ریاستوں میں کسانوں کو لبھانے اور عوام کے سامنے وعدوں کا نیا جال بچھانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں یہ الگ بات کہ عوا م یا کسان اس جال میں کس حد تک پھنستے ہیں۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری اورا تر پردیش معاملوں کی انچارج پرینکا گاندھی نے ریاست کی یوگی سرکار پر الزام لگایا ہے کہ ان کی پارٹی یعنی بی جے پی کسانوں سے گنّے کی قیمت چار سو روپئے فی کوئنٹل اداکرنے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئی تھی لیکن اب وہ اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے،اور اس نے گنّے کی قیمت میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں کیا۔پرینکا کا یہ بیان دراصل کانگریس کی پنجاب حکومت کے ذریعہ کسانوں کو گنّے کی قیمت 360روپئے فی کوئنٹل ادا کرنے کے اعلان کے بعد آیا ہے۔پرینکا نے پنجاب کی کیپٹن امریندر سنگھ حکومت کی تعریف کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ پنجاب حکومت نے کسانوں کی بات سنی اور گنّے کی قیمت میں اضافہ کیا۔پرینکا نے اپنے اس ٹویٹ میں الزام لگایا ہے کہ اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے الیکشن کے وقت کسانوں سے کیا ہوا یہ وعدہ نہیں نبھایاکہ وہ انھیں چار سو روپئے فی کوئنٹل کے حساب سے گنّے کی قیمت دلائیگی۔حکومت نے تین سال تک گنّے کی قیمت میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں کیا،اور کسانوں کے ذریعہ اس معاملے میں آواز اٹھائے جانے پر انھیں ”دیکھ لینے“جیسی دھمکیاں دیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ بدھ کو ہی مرکز کی اقتصادی معاملات کی کابینی کمیٹی نے کسانوں کو گنّے کی قیمت 290روپئے فی کوئنٹل کیے جانے کی منظوری دی ہے۔حالانکہ اتر پردیش ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے کہ جو مرکز کی ایف آر پی پر نہیں بلکہ اپنے حالات اور تقاضوں کے مطابق گنّے کی قیمت طے کرتے ہیں۔ان میں پنجاب،ہریانہ،اتر اکھنڈاور بہار بھی شامل ہیں۔یعنی یہ ریاستیں مرکز کی طے کی گئی قیمتوں سے الگ ایس اے پی بنیاد پر گنّے کی قیمت طے کر تی ہیں۔اب ان میں سے کانگریس اقتدار والی پنجاب ریاست نے جس طرح گنّے کی قیمت طے کی ہے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کے کسان خوش ہیں اس کے سبب بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے سامنے بھی کسانوں کو مطمئن کرنے کا مسئلہ ہے۔خصوصاً اتر پردیش میں گنا کسانوں کا مغربی اتر پردیش کی سیاست میں بہت گہرا اثر ہے اور انھیں نظر انداز کرنا یوگی سرکار کے لیے کم از کم اس انتخابی سال میں آسان نہیں ہے۔کسان تحریک کو دیکھتے ہوئے یوگی حکومت کے سامنے جو مسائل ہیں وہ بھی کم نہیں ہیں۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سماجوادی پارٹی کی اکھیلیش سرکار کے آخری سال یعنی 2016-2017میں کسانوں کو گنّے کی قیمت 315روپئے فی کوئنٹل کے حساب سے ادا کی گئی تھی اور یوگی سرکار نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس میں دس روپئے کا معمولی اضافہ کیا تھا،لیکن تب سے آج تک کسانوں کے بار بار مطالبے کے باوجود اس قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔جبکہ کسانوں کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔دوسری طرف مرکزی حکومت کے نئے مجوزہ زرعی قوانین کے سبب بھی کسانوں کی اکثریت حکومت سے ناراض ہے۔اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے اور کسان تحریک کے روح رواں راکیش ٹکیت کہہ چکے ہیں کہ وہ اتر پردیش میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے کا م کرینگے۔کسانوں کی پارٹی سمجھی جانے والے راشٹریہ لوک دل نے بھی بی جے پی کے خلاف کسانوں کو متحد کرنے کا کا م شروع کر دیا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ریاست کی چینی ملوں پر گنّا کسانوں کا تقریباً سات ہزار کروڑ روپیہ بقایہ ہے اور کسانوں کا مطالبہ ہے کہ انھیں اس بقایہ رقم پر سود دلایا جائے۔یعنی حکومت گنّا کسانوں کی فلاح و بہبود کے خواہ کتنے ہی دعوے کرتی رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کسانوں کے مسائل کو دیکھتے ہوئے ان کی ناراضگی دور کرنا کارمحال ہے۔حالانکہ کسانوں کے ساتھ چند روز قبل ہوئی ایک میٹنگ میں وزیر اعلیٰ یوگی نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ گنّے کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بجلی بقایہ کے لیے حکومت او ٹی ایس اسکیم بھی لائیگی۔یوگی نے کسانوں سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ ان کے خلاف فصل جلانے کے جو معاملے درج ہیں وہ واپس لیے جائینگے اور جرمانے کی جو رقم ان سے وصول کی گئی ہے وہ واپس کی جائیگی،لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ابھی تک ریاستی حکومت نے یہ اعلان کسانوں کے سامنے نہیں کیا ہے کہ گنّے کی قیمتوں میں کتنا اضافہ کیا جائیگا۔جبکہ کسانوں کے مسائل میں سردست سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔
گنّے کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ دراصل یوگی سرکار کے لیے اس لیے بڑا چیلنج ہے کہ پنجاب حکومت نے اس معاملے میں سبقت لیتے ہوئے گنّے کی نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا ہے،اوردیگر ریاستوں خصوصاً اتر پردیش کے کسانوں کو جو پیغام دیا ہے اس کا فائدہ آئیندہ اسمبلی الیکشن میں کانگریس اٹھانے کی پوری کوشش کریگی۔پرینکا جس طرح سے اتر پردیش کی سیاست میں سرگرم نظر آتی ہیں اس پر فی الحال کوئی پیش گوئی کرناآسان نہیں،لیکن ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ پنجاب کی کیپٹن سرکار کا اس معاملے میں موقف کسی نہ کسی شکل میں اتر پردیش کو متاثر کریگا۔جہاں تک اتر پردیش کا تعلق ہے تو جیسا کہ ابھی کہا گیا کہ مغربی اتر پردیش کا کسان خاص طور پر بی جے پی سے ناراض ہے۔اس ناراضگی کا سبب محض گنّے کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونا ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے بھی بڑا سبب زرعی قوانین ہیں۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گذشتہ بدھ کو اپنی رہائش گاہ پر ریاست کے55اضلاع کے جن کسانوں سے بات کی ان میں کوئی کسان ایسا نہیں تھا کہ جس نے ان زرعی قوانین کے معاملے کو بھی ریاستی حکومت کے سامنے رکھا ہو۔اس کا صاف سا مطلب یہ ہے کہ جن کسانوں کی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرائی گئی ان میں مغربی اتر پردیش کی ان کسان یونینوں کاکوئی نمائیندہ نہیں تھا کہ جوگذشتہ تقریباً دس ماہ سے دلّی،یو پی کی سرحد پر زرعی قوانین کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں۔
ان کسانوں کو نظر انداز کرنا حکومت کی حکمت عملی کا حصہ ہے یا پھریہ محض ایک اتفاق ہے یہ بات تو حکومت اور اس کے مشیر ہی جانتے ہونگے لیکن ایک بات بہرحال طے ہے کہ جہاں گنّا کسانوں کے لیے ان کی فصل کے دام ایک بڑا مسئلہ ہے وہیں زرعی قوانین کے تعلق سے ان کی فکر مندی کو بھی ہلکے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔بی جے پی اور یوگی حکومت کو یہ بات سمجھ لینی ہوگی کہ مغربی اتر پردیش کا کسان خصوصاً ایک بڑی طاقت ہے۔گذشتہ پارلیمانی اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ان کسانوں نے بی جے پی کو جتانے میں ایک بڑا رول ادا کیا تھا۔تب سے یہ مانا جا رہا تھا کہ یہ کسان بی جے پی کا ووٹ بنک ہیں لیکن زرعی قوانین کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ان کسانوں کا موقف بدلا ہے اور ان میں یہ احساس ابھرا ہے کہ بی جے پی یا اس کی حکومتیں کسان دشمن اور ملک کے چند بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کی محافظ ہیں۔جس طرح سے کسانوں کی تحریک گذشتہ دس ماہ سے جاری ہے اس پر مودی حکومت کا رویہ کسانوں کے مذکورہ احساس کو تقویت بخشتا ہے۔اس احساس کو صرف گنّے کی قیمتوں میں اضافے یا چند فروعی مطالبات کی تکمیل کرکے ختم نہیں کیا جا سکتا۔اتر پردیش کی یوگی حکومت کے ذریعہ گنّے کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ درحقیقت کسانوں پر جاری سیاست کا ہی ایک حصہ ہے،ہر چندکہ پہلے کی حکومتیں بھی یہ سیاست کرتی رہی ہیں۔ حکومت کو اگر واقعی کسانوں کے مفادات عزیز ہیں تو اسے زرعی قوانین پر بھی اپنا موقف واضح کرنا چاہیے، لیکن ایسا نہ کرکے محض چند معاملات میں کسانوں کو بہلانے کی کوشش سے بی جے پی کسانوں کا اعتماد حاصل نہیں کر سکتی،اور اس کے منفی اثرات اتر پردیش اسمبلی کے آئیندہ انتخابات پر پڑنے کے امکان سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:09811602330
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔