کوروونا ٹیسٹ کی ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں جعلی رپورٹیں جاری کی گئیں۔ اور یہ سب ہوا کمبھ میلے کے دوران۔ اترا کھنڈ کے محکمہ صحت کی تفصیلی جانچ پڑتال بڑی سنسنی خیز ہے۔ ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جانچ پڑتال میں متعدد بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ مثال کے طور پر پچاس سے زیادہ لوگوں کے رجسٹریشن کے لئے ایک ہی فون نمبر کو استعمال کیا گیا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ایک ہی اینٹی جن ٹیسٹ کٹ سے سات سو سیمپل ٹیسٹ کر دئے گئے۔ اس قسم کی خبریں ملنے کے بعد کہ ہری دوار میں کمبھ میلے کے دوران عقیدت مندوں کے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ جاری کرنے میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑی کی گئی ہے۔ہریدوار ضلع انتظامیہ نے جانچ کا حکم دیا تھا۔ کمبھ میلے میں لاکھوں عقیدت مندوں کا کورونا ٹیسٹ کرنے کے لئے اترا کھنڈ حکومت نے نجی لیباریٹریز کو ذمہ داری سونپی تھے۔
جعلی کورونا رپورٹوں کے الزامات کی جانچ کے لئے چیف ڈولپمنٹ افسر سوربھ گہر وار کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ اس نے پندرہ روز میں اپنی رپورٹ ہری دوار کے ضلع مجسٹریٹ سی روی شنکر کو سونپ دی۔کمبھ میلے کے دوران کورونا گائڈ لائنس کی شدید خلاف ورزی کی خبریں عام تھیں۔ اب عقیدت مندوں کی کورونا ٹیسٹ کی جعلی رپورٹوں کے الزامات ثابت ہو گئے ہیں۔یہ بات تو طے ہیکہ جن پرائیویٹ لیبا ریٹریز کو کورونا ٹیسٹ کی ذمہ داری دی گئی تھی انہوں نے ریاستی حکومت کے اشارے کے بغیر تو جعلی رپورٹیں دینے کااتنا بڑا خطرا مول نہیں لیا ہوگا۔ یہ سب حرکت یہ ثابت کرنے کے لئے کی گئی کہ کمبھ میلے سے کورونا نہیں پھیلا۔
ملک میں کورونا کا زور ہونے کے دوران کمبھ میلا منعقد کرنے کے مرکزی اور ریاستی سرکار کے فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ اپنے فیصلے کو جائز ثابت کرنے کے لئے اترا کھنڈ کی حکومت نے جعلی رپورٹوں کا کھیل کھیلا۔ یہ تو پتہ لگا لیا گیا کہ کورونا ٹیسٹ کی لاکھوں جعلی رپورٹیں جاری کی گئیں لیکن یہ پتہ لگانا مشکل ضرور ہیکہ کمبھ میلے میں شامل ہونے والے کتنے عقیدت مند کورونا سے متاثر ہوئے اور جان لیوا وائرس کو انہوں نے کہاں کہاں پھیلایا اور کتنے لوگ کورونا کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
کمبھ میلے سے کورونا کے شدت سے پھیلنے کا اندازہ صرف اس سے لگایا جاسکتا ہیکہ ہزاروں لاشیں ندیوں میں بہہ کر کہیں سے کہیں پہونچ گئیں۔یہ اندازہ لگانا اب مشکل نہیں ہیکہ مختلف ریاستوں میں ندیوں میں جو لاشیں بہہ رہی تھیں وہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی ہی تھیں۔