کربلا کے درد ناک واقعات نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ اور ہرپہلو پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ہر شعبہ حیات سے متعلق افراد نے اپنے اپنے ظرف کے اعتبار سے کربلا کے اثرات کو قبول کیا اور اپنے اپنے ڈھنگ سے کربلا کے ان نقوش کو اپنے فن کے ذریعے ظاہر کیا جو انکے قلب پر وارد ہوئے۔ چنانچہ فنون لطیفہ کا بھی کوئی وسیلہ اظہار اس سے اچھوتا نہیں رہا۔جزبات و احساسات کے اظہار کے دو طریقے دنیا بھر میں بہت مضبوط اور موثر تسلیم کئے گئے ہیں۔شاعری اور مصوری۔شاعری میں دیگر اصناف سخن کے ساتھ ساتھ مراثی کوواقعات کربلا کے بیان کاسب سے موثر طریقہ قرار دیا گیا۔رثائی ادب ایک طرح سے غم کربلا کے اظہار سے ہی مخصوص ہو گیا ہے۔انسانی جزبات کے اظہار کا دوسرا اہم وسیلہ مصوری ہے۔دنیا کے بڑے بڑے مصوروں نے کربلا کو اپنے کینوس پر اتارا. لیکن کربلا سے متعلق یہ شاہکار بکھرے ہوئے ہیں۔
امروہا میں کربلا کے واقعات کو پینٹنگز کے ذریعے پیش کرنے کی ایک منظم کوشش کی جارہی ہے۔ مرثیہ گو شاعر اور مصور وسیم عباس امروہوی کینوس کے ذریعےکربلا کو پیش کررہے ہیں۔ وسیم امروہوی کربلا کے واقعات پر مبنی دس فن پاروں کا ایک کلکشن تیار کررہے ہیں۔ اس کربلائی پروجیکٹ کی کئی خصوصیات ہیں۔ پینٹنگز کا یہ سلسلہ مدینہ سے امام حسین کے قافلے کی روانگی سے شروع ہوتا ہے ۔ روز عاشور رونما ہونے والے مختلف درد انگیز واقعات کو کینوس پر اس انداز سے اتارا گیا ہیکہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کربلا سے متعلق ہر پینٹنگ کا عنوان کسی مرثیہ کا مصرع ہے۔ اس پروجیکٹ کی افادیت کے بارے میں وسیم امروہوی کا یہ کہنا ہے۔
مرثیہ کے مصرعے کا انتخاب اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ کینوس پر پش کئے گئے واقعہ کا مکمل تعارف کرادیتا ہے۔چونکہ مصور وسیم امروہوی خود بھی مرثیہ نگار ہیں اور انیس و دبیر کے مراثی انکے تحت الشعور میں محفوظ ہیں اس لئے انکی پینٹنگز میں واقعہ کی تمام تر جزئیات کا خیال رکھا گیا ہے۔
کربلا کے دردناک واقعات پر مبنی پینٹنگز کا یہ کلکشن رثائی ادب اور مصوری کے اثر انگیز امتزاج کا تاریخی شاہکار کہا جاسکتا ہے۔ وسیم امروہوی کی یہ کوشش دیگر مصوروں کو لئے مشعل راہ ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا کے کسی اور گوشے میں بیٹھا کوئی مصور کربلا کو کسی اور طریقے سے کینوس پر اتار کر پیغام کربلا کو عام کرنے کی کوشش کرے۔