جدید مراثی اور نوحوں کے لئے مشہور شاعر اہل بیت عشرت رضوی لکھنوی کا گزشتہ روزلکھنؤ میں انتقال ہو گیا۔ وہ اکہتر برس کے تھے۔ انکا اصل نام سید کاظم حسین رضوی تھا لیکن وہ عشرت لکھنوی کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔ انیس سو پچاس میں پیدا ہونے والے عشرت لکھنوی کے والد سید افضل حسین کیفی بھی اپنے زمانہ کے کہنہ مشق شاعر اور منفرد انداز کے خطاط تھے۔ استاد شاعر انور نواب انور اورانکے والد کیفی لکھنوی کے درمیان دوستانہ مراسم تھے۔ عشرت لکھنوی نے انور نواب انور کی شاگردی اختیار کی۔
عشرت لکھنوی عرصہ دراز سےانجمن شبیریہ کے صاحب بیاض اور شاعر تھے۔ عشرت لکھنوی مختصر مراثی نظم کرتے تھے۔ انہوں نے جن موضوعات کو اپنے مراثی کے لئے منتخب کیا ان میں اتحاد، حقوق والدین۔ جھوٹ، امن، دوستی۔نماز،شراب خوری، تصور آزادی خاص ہیں۔ انہوں نے اپنے مراثی کے ذریعے اصلاح قوم کا فریضہ ادا کرنے کی بخوبی کوشش کی۔ عشرت لکھنوی کے مراثی کے دو مجموعے اشکوں کی زباں اور فرات غم منظر عام پر آکر قبولیت عام حاصل کرچکے ہیں۔
انکے نوحوں کا بھی ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ مراثی کے انکے دونوں مجموعات دس دس مراثی پر مشتمل ہیں۔ عشرت لکھنوی کے انتقال پر لکھنؤ کے مدحیہ ادبی حلقے میں سوگ کی لہر دوڑ گئی ہے۔