چوبیس ذی الحجہ کی تاریخ مسلمانوں کو ایک عظیم واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ اس دن مسلمانوں کو عیسائیوں پر بغیر کسی خون خرابہ کے فتح نصیب ہوئی تھی۔ مباہلہ کا واقعہ 9 ہجری کو پیش آیا۔ نجران کا علاقہ یمن کے شمالی پہاڑی سلسلے میں واقعہ ہے جہاں عیسائیوں کی بڑی تعداد رہتی تھی۔ وہاں انکے گرجا گھر بھی قائم تھے جب مسلمانوں نے مکہ کو فتح کیا اور اسلام تیزی سے پھیلا تو مختلف گروہ اسلام میں داخل ہوئے۔ دین کی دعوت کا ایک پیغام رسول اللہ کی جانب سے نجران کے عیسائیوں تک بھی پہنچا۔ 14 عیسائیوں پر مشتمل ایک قافلہ رسول اللہ سے گفتگو کرنے کے لئے مدینہ آیا اور تین روز تک عیسائی رسول اللہ سے اپنے عقیدے کو صحیح ٹھہرانے کے لئے بحث کرتے رہے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں جبکہ مسلمان جناب عیسیٰ کو صاحب کتاب پیغمبر سمجھتے ہیں۔ عیسائیوں کی کٹ حجتی کو دیکھتے ہوئے اللہ کی جانب سے آیت نازل ہوئی اور رسول سے کہا گیا کہ اب عیسائیوں سے مباحثہ نہیں مباہلہ کیجیئے۔ ان سے کہئے کہ یہ اپنے بیٹوں کو لائیں ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں۔ وہ اپنی عورتوں کو لائیں اور ہم اپنی عورتوں کو لاتے ہیں۔ وہ اپنے نفسوں کو لائیں ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور دونوں مل کر جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنے اور اسلام کے تحفظ اور بالادستی کے لئے اپنے ساتھ حضرت علی (ع)، حضرت فاطمہ زہرا (س)، حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو لیکر میدان میں آگئے لیکن عیسائی پنجتن کے پر نور چہروں کو دیکھ کر خوف کھا گئے ۔ بزرگ پادریوں نے کہا کہ ہم ایسے چہرے دیکھ رہے ہیں کہ اگر یہ اشارہ کریں تو پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرنے لگیں گے اگر انہوں نے اللہ سے لعنت کی دعا کردی تو عیسائی تباہ ہو جائیں گے۔ عیسائی مباہلہ سے پیچھے ہٹ گئے اور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔ اس طرح مباہلہ میں اہلبیت (ع) کی ہمراہی میں پغمبر اسلام (ص) کو فتح نصیب ہوئی۔ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی یہ واحد فتح ہے کہ جس میں بغیر خون بہے اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ مباہلہ سے اس پروپگنڈہ کا بھی خاتمہ ہو گیا کہ رسول اللہ کے ایک سے زیادہ بیٹیاں تھیں۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول مباہلہ کے لئے اپنی دیگر بیٹیوں کو بھی لیکر جاتے لیکن میدان مباہلہ میں صرف بی بی فاطمہ کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہیکہ بی بی فاطمہ کے سوا رسول اللہ کی کوئی اور بیٹی نہیں تھی۔