محرم کے تعلق سے یو پی ڈی جی پی کی نہایت قابل اعراض اور اشتعال انگیز گائڈ لائنس ابھی تک واپس نہیں لی گئی ہیں۔شیعہ اور سنی مسلک کے علما نے ان گائڈ لائنس پر سخت احتجاج اور غصہ ظاہر کرتے ہوئے انکی واپسی کا یو گی حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔مختلف اضلاع میں ان گائڈ لائنس کے خلاف احتاج کرتے ہوئے ضلع حکام کو میمورنڈم پیش کئے گئے۔احتجاج کا جو سلسلہ جاری تھا اور مزید تیز ہورہا تھا کچھ علما کے ڈھل مل رویہ کے سبب دم توڑنے لگا ہے۔گائڈ لائنس واپسی کا شور کچھ علما کی مصلحت کوشی کی چادر میں دب گیا ہے۔
ان مصلحت کوش علما میں سر فہرست نام مولانا کلب جواد کا ہے۔مولانا دلی کیا گئے وہاں جاتے ہی انکے سر مدھم پڑگئے۔لکھنؤ میں جس انداز سے مولا نا کلب جواد یو گی حکومت کے خلاف بپھرے ہوئے تھے دہلی پہونچ کر انکے تیورڈھیلے پڑ گئے نہ صرف ڈھیلے پڑ گئے بلکہ رویہ حکومت کے تئیں نرم ہو گیا۔یوگی حکومت پر دباؤ بنانے کے لئے یہ طے ہوا تھا کہ محرم کے تعلق سے مختلف ضلعوں میں امن کمیٹیوں سے ضلع حکام کی گفتگو کا بائکاٹ کیا جائے گا لیکن اب مولانا کلب جواد کی شیعہ اور سنی مسلمانوں سے یہ اپیل ہیکہ محرم سے متعلق ضلع حکام کے ذریعے طلب کی جانے والی میٹنگز میں شریک ہوں۔مولانا کلب جواد کے رویہ میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ کیا ہے۔اسکی وجہ خود مولانا نے جو بیان کی ہے وہ سمجھ سے باہر ہے۔مولانا فرماتے ہیں کہ یو پی کے اعلی پولیس حکام نے انکو یہ یقین دہانی کرائی ہیکہ آئندہ شیعوں کی دل آزاری کا کوئی کام نہیں ہوگا۔یعنی جو دل آزاری ہو گئی ہے اور گائڈ لائنس کے واپس نہ لئے جانے کی صورت میں ان کی جو دل آزاری ہورہی ہے وہ برقرار رہےگی لیکن آئندہ نہیں ہوگی واہ واہ کیا خوب مولانا اور آپ نے حکام کی اس یقین دہانی پر یقین کرلیا۔
آخر کیا وجہ ہیکہ اشتعال انگیز اور شیعوں کے جزبات کو ٹھیس پہونچانے اور انکے خلاف بے بنیاد الزامات پر مشتمل موجودہ گائڈ لائنس کی واپسی کے مطالبے سے مولانا دستبردار ہو گئے۔ کون سی مراعات اور فائدےانکو یوگی حکومت سے حاصل ہو گئے کہ انہوں نے پوری شیعہ قوم کے جزبات کا سودا کرلیا۔کہیں یہ تو نہیں کہ کچھ مراعات کا وعدہ بی جے پی حکومت نے ان سے پہلے سے کررکھا ہے اور ان مراعات کو خطرے میں پڑتا دیکھ کر مولانا کا احتجاج صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔متنازعہ گائڈ لائنس پر احتجاج کا ڈھونگ کہیں مولانا کے ذریعے مجوزہ اور ممکنہ مراعات کے حصول کے لئے دباؤ بنانے کے لئے تو نہیں کیا گیا تھا تاکہ قوم بھی خوش ہو جائے کہ مولانا کو اسکے جذبات کی فکر ہے اور حکومت پر تھوڑا بہت دباؤ بھی پڑ جائے۔لیکن حالات اتنے بے قابو نہ ہوجائیں کہ وعدہ کی گئی مراعات کا حصول ہی خطرے میں پڑ جائے تو مولانا نے رویہ نرم کرلیا۔واہ مولانا آپ تو اپنے دونوں ہاتھوں میں لڈو لئے ہوئے ہیں۔قوم بھی خوش اور بی جے پی حکومت بھی ناراض نہیں۔مولانا کے اوپر تو اکبر الہ آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ۔
مجھے تو اپنی قوم کی سادہ لوحی پر ترس بھی آتا ہے اور غصہ بھی کہ اسکو آج تک اپنے حقیقی رہنماؤں کو شناخت کرنے کی تمیز نہیں آئی۔افسوس یہ بھی ہیکہ سیاسی طور سے لائق اور قابل لیڈر شپ سے محروم و یتیم یہ قوم حقیقی مزہبی قیادت سے بھی محروم ہے۔اللہ رحم کرے اور علمائے سو سے اس قوم کو محفوظ رکھے۔آمین ثم آمین