qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی تیاری۔۔تحریر سراج نقوی

یو پی وزہر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ(فائل فوٹو)

مغربی بنگال سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہونے اور نئی حکومتوں کے قیام کے بعد اب پوری دنیا کی نگاہیں اتر پردیش میں آئیندہ برس ہونے والے اسمبلی انتخابات پر لگی ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے اتر پردیش کی اہمیت یہ ہے کہ اس ریاست کو فتح کیے بغیر مرکز میں حکومت سازی کسی کے لیے بھی تقریباً ناممکن ہے۔2014کے پارلیمانی انتخابات سے قبل فرقہ پرست طاقتوں نے کس طرح اتر پردیش فتح کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کی تھی اس کا ثبوت ریاست کے ضلع مظفرنگر میں پارلیمانی الیکشن سے پہلے ہوئے وہ فرقہ وارانہ فسادات ہیں جنھوں نے ہندو اور مسلمان کی بنیاد پر ووٹوں کی صف بندی میں بڑا رول ادا کیا اور سماجوادی حکومت کے خلاف عوام میں کوئی بڑی ناراضگی نہ ہونے کے باوجود بی جے پی کے ہندوتو کی حمایت کرتے ہوئے اس پارٹی کو ووٹ دیا۔افسوسناک سچّائی یہ ہے کہ ہے کہ سیکولرزم کی دعویدار کوئی بھی پارٹی بی جے پی کے اس فرضی ہندوتو کے سامنے نہیں ٹک پائی اور اس طرح نہ صرف مرکز بلکہ ریاست میں بھی بی جے پی کا قتدار قائم ہو گیا۔لیکن سچاّئی یہ بھی ہے کہ مرکز ہو یا ریاستوں کی بی جے پی حکومتیں کسی نے بھی عوامی مفادات کی پرواہ نہیں کی اور ہر محاذ پر بد انتظامی کے ایسے ریکارڈ قائم کیے کہ آج عام طور پر یہ مانا جا رہا ہے کہ بی جے پی یو پی میں اپنی جیت نہیں دوہرا پائیگی۔ان قیاس آرائیوں سے قطع نظر یہ بہرحال حقیقت ہے کہ کورونا کے دور میں ریاستی حکومت کو عدالت کی طرف سے کئی مرتبہ سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ انتظامیہ کی نااہلی کے نتائج کسی مخالف سیاسی پارٹی یا اس کے لیڈر کو ہی نہیں بلکہ خود بی جے پی کے کئی لیڈروں کو بھی بھگتنے پڑے ہیں اور اس کے نتیجے میں بہت سے اندھ بھکتوں کی آنکھیں کھلی ہیں۔بی جے پی کے تعلق سے ان کی ناراضگی بڑھی ہے اور یہ ناراضگی الیکشن آتے آتے پارٹی کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔لہٰذا مختلف سطحوں سے اس بات کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ووٹروں کو رام کیا جائے۔

گورکھناتھ مندر۔گورکھپور

ان کوششوں میں ایک کوشش ایک مرتبہ پھر کسانوں کو بات چیت کی دعوت دینا بھی ہے۔جبکہ دوسری طرف ہندوتو کے ایشو کو بھی کسی نہ کسی طرح گرم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔یہ بے سبب نہیں ہے کہ گورکھپور کے گورکھناتھ مندر کے قرب و جوار میں رہنے والے تقریباً 11مسلم کنبوں کو وہاں سے ہٹانے کی کوششیں اس دلیل کے ساتھ شروع کی گئی ہیں کہ ان سے مندر کے وجود کو خطرہ ہے۔حالانکہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جو کنبے تقریباً ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے مندر کے آس پاس رہ رہے ہیں وہ اب تک مندر کے لیے خطرہ کیوں نہیں بنے۔ان میں سے کئی کنبے ایسے ہیں کہ جن کی مندر کے احاطے میں ہی دکانیں ہیں،اور جن سے خود یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی کبھی کوئی شکایت نہیں رہی،بلکہ اس کے برعکس وہ ان کی تعریف ہی کرتے رہے ہیں۔ایسے حالات میں ان مسلم کنبوں کو مقامی انتظامیہ کی طرف سے اس علاقے سے نکالنے کی کارروائی اور اس سلسلے میں رضامندی کے کاغذات پر دستخط کرانے کی کوششیں سوال تو پیدا کرتی ہی ہیں۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ مسلم کنبے بغیر کسی دباؤ یا جبر کے اس علاقے سے منتقل ہونے پر رضامند ہو گئے ہیں تب بھی یہ سوال تو اپنی جگہ ہے کہ ریاست کے اسمبلی انتخابات سے پہلے اچانک اس طرح کے حالات کیوں پیدا ہوئے؟ اچانک کیوں انتظامیہ کو ان کا وجو د مندرکے تحفظ کے لیے خطرناک لگنے لگا؟یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مسلم کنبوں میں سے کئی نے انتظامیہ کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ انھوں راضی نامے پر ازخود دستخط کیے ہیں۔یعنی یہ واضح ہے کہ ان مسلم خاندانوں کو ان کے مذہب کی بنا پر اس علاقے سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔اگر یہ بات درست نہیں ہے تو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اس علاقے سے کہیں اور منتقل کیے جانے کی بات سامنے آتی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ایک ہفتے میں ریاست کے کچھ شہروں میں کچھ مساجد کے انہدام کی خبریں بھی آئی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ یہ مساجد کافی پرانی تھیں اور مقامی انتظامیہ نے مختلف بہانوں سے ان پر بلڈوزر چلایا ہے۔یہ حالات بتاتے ہیں کہ آہستہ آہستہ سخت گیر ہندو عناصر کو تیار کیا جا رہا ہے۔یہاں ریاستی حکومت کی پانچ سال کی کارکردگی پر تفصیلی بحث کا موقع نہیں لیکن ایک بات تو بہرحال واضح ہے کہ بی جے پی کے بہت سے حامی عناصر بھی اب حکومت کی نااہلی کے سبب پارٹی سے ناراض ہیں اور یہ ناراض ووٹر بی جے پی کے اتر پردیش کو دوبارہ فتح کرنے کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ای وی ایم اور انتظامیہ کی جانبداری یہاں موضوع بحث نہیں۔

دوسرا اہم معاملہ مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر کسان تنظیموں کے سامنے بات چیت کی تجویز رکھنا ہے۔ َحالانکہ اس سے قبل بھی حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے ہیں لیکن یہ سب بے نتیجہ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے قبل بات چیت کی تجویز کے پیچھے کیا مقصد ہے؟وزیر زراعت تومر کا کہنا ہے کہ کسان تنظیمیں زرعی اصلاحات قوانین پر اپنے اعتراضات کے حق میں دلائل پیش کریں اور حکومت ان کے مسائل کو حل کریگی۔تومر کا کہنا ہے کہ کسانوں کے ساتھ 11 دور کی بات ہوئی ہے اور کسانوں کو ٹھوس تجاویز بھی دی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود کسان اپنے اعتراضات کو دلائل کے ساتھ حکومت کے سامنے رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔تومر کی اس بات میں کتنی سچائی ہے یہ تو کسان لیڈر ہی بہتر جانتے ہونگے لیکن کسان تحریک کے روح رواں نریش ٹکیت نے جس طرح ایک ہفتہ قبل مرکز اور اتر پردیش حکومت کے خلاف اپنے سخت تیور دکھائے تھے اسے دیکھتے ہوئے تومر کے اس رخ کے پس پشت مقاصد کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔تو مر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومت کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے۔لیکن اس سوال کا حکومت کے پاس کیا جواب ہے کہ جن زرعی قوانین کو کسان اپنے مفادات کے خلاف مان رہے ہیں انھیں کسانوں کے مفاد میں بتانے کے لیے حکومت کیوں بضد ہے؟کیا اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ کسانوں کے مسائل سے خود کسانوں کے مقابلے میں زیادہ واقف ہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ اتر پردیش میں اسمبلی الیکشن قریب دیکھ کر اور کسانوں کے تیوروں کی سختی دیکھ کر حکومت کسان تنظیموں کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ کسان تحریک سے وابستہ کسانوں میں اکثریت ان کسانوں کی ہے جو گذشتہ پارلیمانی یا اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی جیت ک راہ ہموار کرتے رہے ہیں،لیکن اب یہی کسان دعویٰ کر رہے ہیں کہ جس طرح مغربی بنگال میں بی جے پی کو دھول چٹائی گئی اسی طرح اتر پردیش میں بھی بی جے پی کو شکست دی جائیگی،اور ریاست کے کسان اس میں اہم رول ادا کرینگے۔کسان تحریک میں سرگرم نریش ٹکیت نے حکومت کی بات چیت کی اس نئی تجویز پر مثبت رخ کا اظہار تو کیا ہے لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ مصالحت کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ثابت ہونگی اور بی جے پی کسانوں کو آئیندہ برس اتر پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے اپنے ساتھ لانے میں کس حد تک کامیاب ہوگی۔ اس پورے منظر نامے کا سب سے زیادہ باعث تشویش پہلو یہ ہے کہ ریاست کی تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیاں اسمبلی الیکشن سے پہلے ہی بی جے پی کے سامنے بالواسطہ طور پر خود سپردگی کے موڈ میں نظر آتی ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو بی جے پی کی انتخابی تیاریوں کے سامنے اپوزیشن پارٹیوں میں بھی کوئی ہلچل نظر آتی لیکن ایسا نہیں ہے۔

sirajnaqvi08@gmail.com Mob:- 09811602330

Related posts

صدر جمہوریہ کی ”مایوسی اور خوف“حقیقت یا جانبداری؟۔۔ سراج نقوی

qaumikhabrein

آسام میں کیا کھیل چل رہا ہے؟

qaumikhabrein

کلب جواد نے کیا بی جے پی سے شیعہ ووٹوں کا سودہ

qaumikhabrein

Leave a Comment