qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

فرقہ وارانہ تقسیم کا کھیل۔۔تحریر سراج نقوی

اتر پردیش میں ریاستی اسمبلی کے الیکشن کے پیش نظر بی جے پی نے اپنا پرانااور آزمودہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹوں کی صف بندی کا حربہ آزماناشروع کر دیا ہے۔ریاستی اور مرکزی حکومت کے کئی حالیہ فیصلے اس کا ثبوت ہیں۔مرکزی کابینہ کی توسیع میں اتر پردیش سے 7وزراء کو کایبنہ میں شامل کرنا اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ اپنے حلقہ انتخاب بنارس میں تازہ دورہ کے موقع پر کئی اہم اعلانات کرنا دراصل ووٹروں کو لبھانے کی کوششوں کا ہی ایک حصہ ہے۔جمہوریت میں اس طرح کی کوششوں کو غلط بھی قرار نہیں دیا جا سکتا،لیکن ریاستی حکومت نے گذشتہ کچھ دنوں میں کئی ایسے فیصلے بھی کیے ہیں جو ہندو ووٹوں کی صف بندی کی بی جے پی کی حکمت عملی کا ہی حصہ ہیں۔

حال کے چند مہینوں میں جبراً تبدیلی مذہب کرانے کے الزام میں کئی مسلمانوں کو گرفتار کیاگیاہے۔
خاص بات یہ ہے کہ مبینہ جبراً تبدیلی مذہب کے بیشتر معاملے اتر پردیش سے ہی متعلق ہیں۔اسی طرح اچانک اتر پردیش میں القاعدہ و دیگر دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کئی مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ اتر پردیش پولیس نے کیا ہے۔اب یہ سوال لاحاصل ہے کہ ریاست میں حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے مقامی بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن پارٹیوں کی خاتون امیدواروں کی سرعام ساڑیاں کھینچنے والوں،تشدد کے سہارے اپوزیشن کے امیدواروں کو ڈرانے اوراغوا کرنے والوں کو دہشت گرد کیوں نہ کہا جائے؟یہ سوال بھی مت کیجیے کہ ان غنڈہ عناصرکی حرکتوں پر خاموش تماشائی بنی رہنے والی یو پی پولیس کو کیا کہا جائے؟

اسی طرح اچانک ریاستی حکومت کو یہ خیال بھی آیا ہے کہ ریاست میں آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اسے قابو میں کرنے کے لیے قانون بنانا ضروری ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ بی جے پی قیادت حقیقت کے بر خلاف یہ پروپگنڈہ کرتی رہی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی ا ٓبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً بی جے پی اور سنگھ کے لیڈر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے ہندوؤں سے چار چار بچّے پیدا کرنے کی اپیل بھی کرتے رہتے ہیں،حالانکہ اعدا و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ زیادہ بچے ہونے کا تعلق کسی مذہب کے ماننے والوں سے نہیں ہے اور ہندو کنبوں میں بھی چار کیا اس سے زیادہ بچے ہونے کی بے شمار مثالیں ان گھروں میں موجود ہیں جو آج آبادی پر کنٹرول کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔خود یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر اعظم نریندر مودی کتنے بہن بھائی ہیں یہ اب پورا ملک جان چکا ہے۔ریاستی اسمبلی کی ویب سائٹ سے پتہ چلتاہے کہ اتر پردیش کے بی جے پی ممبران اسمبلی میں سے 152ایسے ہیں کہ جن کے دو سے زیادہ بچے ہیں۔ان میں تین سے آٹھ بچوں والے ممبران اسمبلی بھی شامل ہیں۔ اس کے باوجود اگر حکومت آبادی پر کنٹرول کا قانون بنا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس مفروضے کو آگے بڑھاناچاہتی ہے کہ مسلمان تیزی سے اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں اوراگر ہندو چاہتے ہیں کہ آبادی میں ان کا تناسب بطور اکثریت برقرار رہے تو وہ بی جے پی کو ووٹ دیں ورنہ ان کا وجود خطرے میں پڑ جائیگا۔

وزیر اعلیٰ۔اترا کھنڈ

ہندوتو کی سیاست کا دوسرا پہلومذہبی امور کو سیاست کا حصہ بنانا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو مندر ومسجد کے تنازعہ کو بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے میں شامل کرکے انتخابی جلسوں میں اس ایشو پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔کورونا کی دوسری لہر کے دوران کمبھ میلے میں لاکھوں افراد کو شرکت کی اجازت دے کر جس طرح کورونا کے خطرے کو بڑھایا گیا اور مذہبی جذبات کی تسکین کے نام پر عام ہندوؤں کو خطرے میں ڈالا گیاکیا اسے کیسے جائز ٹھہرایا جا سکتاہے؟جبکہ دوسری طرف لاک ڈاؤن کے سبب مسلمانوں نے رمضان میں مساجد میں جمعہ خصوصاً جمعتہ الوداع اور عید الفطر کی نما زتک ادا نہیں کی۔مساجد کے باہر اس طرح پولیس کے پہرے بٹھائے گئے کہ جسے سرکاری دہشت گردی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔کمبھ میں لاکھوں افراد کی شرکت نے کورونا کو پورے ملک میں پھیلانے میں کیا رول اد کیا اسے اب دوہرانے سے کوئی فائدہ نہیں،اور اب جبکہ ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں تو کانوڑ یاترا کی اجازت دیکر حکومت پھر ہندو آبادی کو خطرے میں ڈال دینا چاہتی ہے.

یہی سبب ہے کہ انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں اس سلسلے کی خبر شائع ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مرکزکی مودی سرکار اور اتر پردیش کی یوگی سرکار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دریافت کیا کہ کورونا بحران کے دوران کانوڑ یاترا کی اجازت آخر کیوں دی گئی؟جسٹس روہنگٹن نریمن کی سربراہی والی بنچ نے اترا کھنڈ حکومت سے بھی اس معاملے میں جواب دینے کو کہا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈ حکومت نے اپنے تجربے کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے کہ کوئی یاترا نہیں ہو گی۔اتراکھنڈ کے نئے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے اعلیٰ افسران کی میٹنگ کے بعد صاف طور پر کہا کہ ”انسانی جانوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے لہٰذا رواں سال کانوڑیاترا کو اجازت نہیں دی جائیگی۔“جبکہ دوسری طرف اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ 25جولائی سے کانوڑ یاترا شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں ریاستی انتظامیہ کو بھی ضروری احکامات دیے جا چکے ہیں۔خبر یہ بھی ہے کہ یوگی نے اس معاملے میں اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ دھامی کو فون بھی کیا تھا اور دھامی نے یاترا کی اجازت دینے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے، دھامی اس معاملے میں اب خواہ کچھ بھی فیصلہ کریں لیکن یاترا کی اجازت نہ دینے کے تعلق سے وہ جو کہہ چکے ہیں وہی سچ ہے اور اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اتراکھند انتظامیہ کا موقف یاترا کے تعلق سے کیاہے۔دوسری طرف اتر پردیش کے وزیر صحت جے پرتاپ سنگھ نے اس معاملے میں جو بیان دیا ہے اس سے واضح ہے کہ حکومت کے لیے کورونا کے خطرات اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات میں سے کس کی زیادہ اہمیت ہے۔وزیر صحت کا کہنا ہے کہ،”ریاست 25جولائی سے کانوڑ یاترا شروع کرانے کے لیے تیار ہے۔“وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ،”یہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنائینگے کہ آر ٹی پی سی آرٹیسٹنگ (یاتریوں کی) ہو۔“جے پرتاپ سنگھ فرماتے ہیں کہ،”یہ عقیدے کا معاملہ ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی یاترا ہوگی۔“سوال یہ ہے کہ اگر کورونا کے خطروں کے باوجود عقائد کے نام پر کانوڑ یاترا کی اجازت دی جا سکتی ہے تو جمعہ،عیدالاضحٰ کی نمازوں اور عنقریب آنے والے محرم الحرام کے جلوسوں پر کس بنیاد پر پابندی لگائی جارہی ہے اور کیوں ریاست میں مذہبی امور کی ادائیگی میں بھی دفعہ144 نافذ ہونے کے بہانے پابندی عائد ہے۔

ریاستی حکومت کے ان تمام دلائل کو اگر درست بھی مان لیا جائے تو پھر جمعہ کے روز مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں اس معاملے پر اپنا موقف رکھتے ہوئے جو بات کہی ہے اسے کیا ماناجائے؟مرکز اور ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری ہونے کے بعد جمعہ16جولائی کو اس معاملے کی سماعت سے ٹھیک پہلے مرکز کی مودی سرکار نے عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے صاف کہا ہے کہ وہ اس وقت کانوڑ یاترا کے حق میں نہیں ہے۔مرکز نے یہ بھی تجویز پیش کی ہے کہ کانوڑ لیکر مندر میں جانے سے بہتر ہوگا کہ ٹینکر کے ذریعہ جگہ جگہ گنگا جل پہنچایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوؤں کے مذہبی عقائد کی فکر یوگی سرکار کو مودی حکومت سے بھی زیادہ ہے؟بہرحال عدالت نے معاملے کی سماعت کے دوران یوگی حکومت سے کہا ہے کہ وہ کانوڑ یاترا سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے ورنہ آئیندہ پیر کے روز ہونے والی سماعت میں عدالت اس معاملے میں خود فیصلہ لینے پر مجبور ہوگی۔ یوگی حکومت یا پھر سپریم کورٹ اب اس معاملے پر کیا فیصلہ لیتے ہیں یہ بات جتنی اہم ہے اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ کانوڑ یاترا شروع کرنے کی اجازت دے کر یوگی حکومت نے ہندو ووٹروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہندو مفادات کی حفاظت ان کی حکومت ہی کر سکتی ہے، اور اس کا مقصد س ووٹوں کی صف بندی کرنا ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:09811602330

Related posts

ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد علمی اور ادبی خدمات “پر سمینار

qaumikhabrein

ہریانہ میں بلیک فنگس سے پانچ کی موت۔

qaumikhabrein

اسرائیل ماضی کی نسبت اپنی بقا کے لئے آج زیادہ پریشان ہے۔ حزب اللہ سربراہ نصر اللہ کا دعویٰ

qaumikhabrein

Leave a Comment