
یمن اور شام کا بائیکاٹ اور محاصرہ کرنے والے ممالک فلسطینیوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن کوئی عملی قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔فارس نیوز ایجنسی کے مطابق خلیج فارس کے ساحلی ملکوں میں بعض باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ قدس شریف اور غزہ کے خلاف اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے دوران متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون جاری رکھا ہوا ہے۔عمان کے تجزیہ کار الشاہین نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر لکھا ہے: “گذشتہ چند دنوں میں ابوظہبی اور تل ابیب کے درمیان آنے جانے والی پروازوں کی تعداد میں غیر معمولی طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بظاہر ابوظہبی کے ولیعہد محمد بن زاید غاصب صہیونیوں کے خلاف اپنے اتحادیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

اگرچہ بڑی تعداد میں امریکی اور یورپی شہری مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ابوظہبی سے تل ابیب کی جانب اتنی زیادہ پروازوں کا مقصد کیا ہے؟ ایک سخاوت مند شیخ کی جانب سے تل ابیب اور نیتن یاہو کی ہر قیمت پر مدد اور تعاون کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ قدس شریف میں صہیونی فورسز کے ساتھ حالیہ جھڑپیں شروع ہونے سے پہلے متحدہ عرب امارات نے بیت المقدس میں فلسطینیوں کی زمینیں اور گھر خریدنے میں صہیونی حکومت سے قریبی تعاون شروع کر دیا تھا۔فلسطین کے تعلق سے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ صیہونی غاصبوں کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینی معصوم بچوں اور خواتین کی شہادت اپنی جگہ ان کی مظلومیت کی عکاسی کرتی ہے لیکن ان کی اصل مظلومیت ان کی شہادت نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے خطے کے بااثر اور مال دار ممالک ہیں جو اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے تک کی اجازت نہیں دیتے۔ او آئی سی کے رکن ملکوں کے وزارئے خارجہ کے ہنگامی اجلاس کی قرار داد اس امر کا واضح ثبوت ہے۔

غاصب صیہونی حکومت کے وزیرجنگ نے نہایت ہی ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ غزہ پر جاری بمباری خطے میں معتدل قوتوں(صیہونی حکومت کے حامی عرب اور اسلامی ملکوں) کے موقف کی تقویت کے مقصد سے کی جارہی ہے