qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

دلت،برہمن،مسلمان اور بی ایس پی۔تحریر سراج نقوی

بی ایس پی کے قومی جنرل سکریٹری ستیش مشرا نے پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز ایودھیا میں ’برہمن سمّیلن‘ سے کیا ہے۔ایودھیا اور برہمنوں کو بی ایس پی لیڈر کی طرف سے دی جانے والی یہ اہمیت اپنے آپ میں کئی پیغام دیتی ہے۔اوّل تو یہ کہ منووادی نظام کو کوسنے والی بی ایس پی ایودھیا سے انتخابی مہم کا آغاز کرکے واضح طور پر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اسے نرم ہندوتو کی راہ پر چلنے میں کوئی گریز نہیں ہے اور سنگھ کے ذریعہ لگائے گئے ہندوتو کے پودھے کو سینچنے کے لیے وہ بھی تیار ہے۔دوسرے یہ کہ بی جے پی کی ہی طرح وہ بھی مسلم ووٹروں کو نظر انداز کرکے انتخابی میدان میں اترنے کا حوصلہ رکھتی ہے، اور ملک کے جمہوری نظام میں اسے عوام نہیں بلکہ دلت اور برہمن مفادات ہی زیادہ عزیز ہیں.

بی ایس پی لیڈر گذشتہ 23 جولائی کو ایودھیا پہنچے تو ”رام للا“ کے درشن کے لیے بھی گئے،اور درشن کرکے یہ بھی کہا کہ”ہم تو برہمن ہیں روز رام کی پوجا کرتے ہیں۔“ بظاہر یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی جلسے کے موقع پر اپنے برہمن ہونے اور رام للا کے تئیں اپنی عقیدت کے اظہار کی کیا ضرورت تھی؟مذکورہ برہمن سمیلن میں ستیش مشرا نے یو پی میں برہمنوں کے حالات کا ذکر کیا اور وکاس دوبے انکاؤنٹر کا حوالہ دیتے ہوئے مبینہ طور پر برہمنوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کا مسئلہ بھی اٹھایا۔وکاس دوبے کے معاملے کو یوگی حکومت کی برہمن مخالف پالیسی کے طور پر دیکھنا درحقیقت ایک سیاسی فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس موقع پر دلتوں اور مسلمانوں سمیت دیگر طبقات کے لوگوں کے انکاؤنٹر کا انھوں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔مشرا نے سمیلن سے اپنے خطاب میں یہ الزام بھی لگایا کہ اتر پردیش میں برہمن 13%فیصد ہیں لیکن پھر بھی حاشیے پر ہیں۔ ستیش مشرا برہمنوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں یا ان کی پارٹی بی ایس پی برہمنوں کی ملک یا ریاست کے نظام میں مزید کتنی حصّے داری چاہتی ہے یہ تو وہ جانیں،لیکن سامنے کاایک سچ یہ ہے کہ دلت،پسماندہ اور مسلم طبقات کے مفادات کی مدعی پارٹی میں خو د ستیش مشرا جو برہمن ہیں مایاوتی کے بعد سب سے طاقتورلیڈر ہیں۔جبکہ یہ بات طے ہے کہ برہمن ووٹ کی اکثریت بی ایس پی کے ساتھ کبھی نہیں رہی۔جبکہ دوسری طرف اتر پردیش کے تقریباً20%فیصد مسلمانوں میں سے بی ایس پی کو کافی ووٹ ملتے رہے ہیں۔یہی معاملہ پسماندہ طبقات کا بھی ہے،لیکن مشرا کو یہ نظر نہیں آتا کہ آج بھی یہ تمام طبقات نوکر شاہی سے لیکر دیگر تمام اہم شعبوں میں حاشیے پر ہیں.

۔مشرانے سمّیلن میں کہا کہ یو پی میں برہمنوں کے حاشیے پر ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ متحد نہیں ہو پارہے ہیں۔مشرا نے زور دیکر کہا کہ اگر 13% فیصد برہمن اور 23%فیصد دلت ایک ہو جائیں تو بی ایس پی کی حکومت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔یعنی صرف دلت اور برہمن مل کر بی ایس پی کی حکومت بنا سکتے ہیں،لیکن ایسا کہتے وقت مشرا یہ بات بھول گئے وہ جس پارٹی میں ہیں اس کی بنیاد ہی برہمن واد یا منووادکے خلاف جنگ لڑنے کے مقصد کو سامنے رکھ کر پڑی تھی۔ستیش مشرا کا یہ بیان اس بات کا بالواسطہ اعلان ہے کہ ان کی پارٹی کومسلمانوں کے ووٹ کی اسی طرح کوئی ضرورت نہیں جس طرح بی جے پی کو نہیں ہے۔ مشرا نے بی ایس پی کے دور اقتدار میں برہمنوں کو دی گئی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس پی حکومت میں برہمنوں نے اسمبلی الیکشن میں 62سیٹیں جیتیں اوران کے ہی سبب ریاست میں بی ایس پی کی حکومت بنی۔مشرا نے یہ بھی بتایا کہ مایاوتی کے دور اقتدار میں 2200برہمنوں کو سرکاری وکیل بنایا گیا اور تمام برہمن افسران کو مناسب تعیناتی دی گئی۔مشرا کا یہ بیان ذات برادری کے تعلق سے ان کی تنگ نظری اور محدود فکر کا ثبوت ہے۔جس طرح انھوں نے مذکورہ اجلاس میں صرف برہمن مفادات کی بات کی اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی ایس پی منو واد کو کوستے کوستے ہوئے اب خود منو واد کی گرفت میں آگئی ہے۔ اقتدار کے لیے پس ماندہ طبقات اور مذہبی اقلیتوں کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان طبقات کی بات کرنا کہ جو برسوں سے بیشتر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں،جو ملک کی جمہوریت کو برہمن واد کا غلام بنانا چاہتے ہیں،دراصل ایک سازش ہے۔مایاوتی اگر واقعی دلت اور دیگر کمزور طبقات کے مفادات کے تئیں حسّاس ہیں تو انھیں اپنی پارٹی کو منو واد کے چنگل میں پھنسنے سے بچانا اور ستیش مشرا جیسے لوگوں کو قابو میں کرنا ہوگا۔


ستیش مشرانے مذکورہ سمّیلن میں یہ بھی دعویٰ کیا جب جب بہن جی کی سرکار آئی ہے ریاست میں نظم و نسق کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔مشرانے بی جے پی کے رام کے تئیں لگاؤ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایودھیا پر صرف بی جے پی کا ٹھیکا ہے؟بات درست ہے کہ رام صرف بی جے پی کے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے ہیں۔لیکن اگر بی جے پی رام پر اپنا حق جتانے یا ان کے تئیں اپنی عقیدت کا سیاسی استعمال کرنے کے معاملے میں غلط ہے تو پھر بی ایس پی لیڈر مشرا کا مذکورہ بیان بھی سیاسی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔جس طرح رام کے نام پر سیاست کرنے کے لیے بی جے پی کو نشا نہ بنایا جاتا ہے،اسی طرح بی ایس پی یا دیگر پارٹیوں کا بھی رام کے نام پر سیاست کرنا درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اگر بی جے پی کارکنوں کے ذریعہ بے موقع ’جے شری رام‘کا نعرہ لگائے جانے پر تنقید کی جاتی ہے تو پھر ستیش مشرا کے سیاسی پروگرام میں یہی نعرہ لگانا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔یہاں یہ یاد دلانا بھی غلط نہ ہوگا کہ سماجوادی پارٹی کے صدر اکھیلیش یادو بھی پارلیمنٹ کے رواں اجلاس کے بعد ایودھیا آنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔یعنی سیکولرزم کی نام لیو ایہ دونوں پارٹیاں اب خود مذہب کی سیاست کی اسی راہ پر چل رہی ہیں جس کے لیے وہ بی جے پی پر تنقید کرتی رہی ہیں۔

تصویر بشکریہ ستیش مشرا ٹویٹر

بی ایس پی لیڈر کا دوسرا پروگرام سنگم نگری پریاگ راج میں 27جولائی کوہوا،اور یہاں پر بھی انھوں نے برہمن مفادات کی ہی زیادہ بات کی اور انھیں اقتدار کا محور بتایا۔جبکہ بی ایس کے حامی رہے پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے تعلق سے انھوں نے ایک لفظ نہیں کہا۔مشرا نے بی جے پی پرالزام لگایا کہ وہ رام مندر کی تعمیر نہیں چاہتی،اس الزام سے یہ واضح ہے کہ بی ایس پی بھی اب رام مندر کے ایشو پر سیاست کرنے کے موڈ میں ہے۔مشرا نے سید آباد کے ہنومان مندر میں بھی پوجا کی۔ظاہر ہے مشرا بی ایس پی سے برہمنوں کو جوڑنا چاہتے ہیں۔حالانکہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں اور ہر سیاسی پارٹی مختلف طبقات کو لبھانے کے لیے یہ سب کرتی ہے،لیکن یہ بات بہرحال قابل غور ہے کہ بی ایس میں اب مسلمانوں کو حاشیے پر دھکیل دیا گیا ہے۔حالانکہ جہاں تک مایاوتی کا تعلق ہے وہ مسلمانوں کے معاملے میں ہمیشہ ہی کچھ تحفظات کی شکار رہی ہیں۔مودی کے تئیں ان کا جھکاؤ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،لیکن ستیش مشرا کے مذکورہ دونوں پروگراموں میں جس سوشل انجینئیرنگ کا اشارہ دیا گیا ہے اس میں مسلمان سے ایک طرح اظہار لاتعلقی اور ان کے بغیر بی ایسی پی کا سیاسی سفر جاری رہنے کے اشارے کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔مشرا کا بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی پارٹی اب برہمن اور دلت اتحاد کے سہارے آگے بڑھنا چاہتی ہے،حالانکہ دلتوں اور برہمنوں سمیت دیگر مبینہ اعلیٰ ذاتوں کے درمیان صدیوں سے جس طرح کے رشتے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے یہ مجوزہ اتحاد طویل مدت تک عملی سطح پر کامیاب رہیگا اس میں شک ہے۔برہمن وادی ذہنیت دلتوں کو اقتدار میں اپنے ساتھ حصّے دار بنا لیگی یہ مان لینا بی ایس پی کے لیے بھی ایک فریب ہی ثابت ہوگا۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile: 09811602330

Related posts

یورپین یونین کا افغان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار

qaumikhabrein

نصرت جہاں چوہدری امریکہ میں پہلی مسلم خاتون وفاقی جج۔

qaumikhabrein

امروہا۔8محرم۔ مراسم عزا عزاخانہ تک محدود

qaumikhabrein

Leave a Comment