افغانستان کی فو ج نے دعویٰ کیا ہیکہ ہندستانی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کی موت کراس فائرنگ سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اسے طالبان نے پکڑا تھا او بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکورٹی فورسیز کے ترجمان اجمل عمر شنواری نے سرکاری طور پر کہا ہیکہ پولتزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کو پہلے طالبان نے قبضے میں لیا اور بعد میں قتل کردیا۔اجمل نے کہا کہ دانش کے جسم کو مسخ کیا گیا یا نہیں اسکی جانچ کی جارہی ہے چونکہ دانش کی موت جہاں ہوئی تھی وہ علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ اس لئے جانچ پڑتال میں تھوڑا وقت لگےگا۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کی واشنگٹن ایگزامینر میگزین نے پہلی بار دعویٰ کیا تھا کہ دانش کی موت کراس فائرنگ میں نہیں ہوئی بلکہ طالبان نے اسکو شناخت کرنے کے بعد بے دردی سے قتل کیا۔ادھر نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں کوریج کے دوران طالبان کے ذریعے مارے گئے دانش کی لاش کو مسخ کیا گیا تھا۔ دانش کے بدن پر گولیوں اور ٹائروں کے نشان تھے۔38 سالہ دانش ایک ذمہ داری سونپے جانے کے نتیجے میں افغانستان میں تھے۔ قندھار کے اسپن بولدک ضلع میں افغان فوجیوں اور طالبان کے بیچ لڑائی کے دوران انکی موت ہوئی تھی۔ طالبان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دانش کی موت میں اسکا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ہندستانی اور افغانی حکام کا کہنا ہیکہ واقعہ کے دن شام کو جب دانش کی میت ریڈ کراس کو سونپی گئی اور اسے قندھار کے ایک اسپتال میں منتقل کیا گیا۔ تب میت بری طرح سے مسخ شدہ تھی۔نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر نے ان تصویروں کو دیکھا ہے جو کچھ ہندستان حکام کے ذریعے مہیا کرائی گئی تھیں اور اسپتال میں افغان صحت کارکنوں کے ذریعے لی گئی تھیں۔ان تصوییروں میں صاف نظر آرہا تھا کہ دانش کی لاش کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ ایک ہندستانی افسر نے بتایا کہ دانش صدیقی کے بدن پر درجن بھر گولیوں کے نشان تھے اور انکے چہرے اور چھاتی پر ٹائر کے نشان تھے۔