مجرم صرف مجرم ہوتا ہے۔ مجرم کو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر نہیں دیکھا جانا چاہئے یہ قانونی اور اصولی بات آسام کے نئے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما شاید نہیں جانتے اگر جانتے ہیں تو اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ ایک حالیہ واقعہ کے تمام ملزمین کے نام انہوں نے اپنے ٹویٹر پوسٹ میں ظاہر کئے۔ وہ سب مسلمان ہیں۔ سوال یہ پوچھا جاسکتا ہیکہ اگر تمام ملزمین ہندو ہوتے تب بھی کیا وزیر اعلیٰ انکے نام کھلم کھلا ظاہر کرتے؟
واقعہ آسام کے ہوجوئی واقع اودالی ماڈل اسپتال کا ہے جہاں ایک مریض کی دوران علاج موت ہو گئی۔ غصے میں مریض کے تیمار داروں اور رشتےداروں نے سیجو کمار سینا پتی نامی ڈاکٹر کی پٹائی کردی اور اسپتال میں توڑ پھوڑ کی۔موقع پر موجود کسی شخص نے پورے ہنگامے کی ویڈیو بنالی اور اسکو سوشل میڈیا پر پھیلا دیا۔یقینی طور پر یہ مجرمانہ حرکت ہے اور اسکے ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جانی چاہئے۔ پولیس نے کیس درج کرکے چوبیس ملزمین کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔پولیس جلد سے جلد چارج شیٹ فائل کرنے کی بات کہہ رہی ہے۔
۔سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ وزیر اعلیٰ نے اپنے ٹویٹر پوسٹ میں تمام ملزمین کے نام کیوں ظاہر کئے۔ کیا وہ اس وقت بھی ایسا ہی کرتے جب حملہ آور ہندو ہوتے۔؟ اس حرکت سے وزیر اعلیٰ نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا تو ثبوت پیش کیا ہی ہے انہو ں نے ہندوں اور مسلمانوں کے بیچ نفرت پھیلانے کی بھی جان بوجھ کر کوشش کی ہے۔ وزیر اعلیٰ کی دیکھا دیکھی ریاست کے پولیس ڈی جی پی جی پی سنگھ نے بھی ملزمین کے نام اپنے ٹویٹر پوسٹ پر ظاہر کئے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہیکہ کسی وزیر اعلیٰ نے کسی واقعہ کے ملزمین کے نام اس طرح جگ ظاہر کئے ہیں۔ ڈاکٹر پر حملے اور اسپتال میں توڑ پھوڑ کی کسی طور تائید نہیں کی جاسکتی حمہ آوروں کےخلاف ضروری قانونی کاروائی ہونی چاہئے لیکن وزیر اعلیٰ کی حرکت کو بھی قانونی،اصولی اور اخلاقی طور سے بجا نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔