امریکی صدر جو بائڈن اور عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جسکے مطابق امریکہ عراق میں اپنا جنگی مشن 2021 کے آخر تک ختم کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔ امریکی فوجی اٹھارہ برس سے عراق میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ بائڈن اور کاظمی کی ملاقات اوول آفس میں ہوئی۔ کاظمی پہلی بار امریکہ آئے ہیں۔ امریکہ روانہ ہونے سے پہلے عراقی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ داعش سے مقابلے کے لئے عراق کو امریکی فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے۔
عراقی حکومت پر امریکی فوجیوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کا زبردست عوامی دباؤ ہے۔ ایرانی سپاہ پاسداران کے جنرل سلیمانی اورحشد الشعبی کے نائب کمانڈر کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد سے عراق میں قائم امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے عراق شام سرحد پر حملہ کرکے حشد الشعبی کے فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ جسکے بعد سے حشد الشعبی کی جانب سے امریکی فوجیوں اور اسکے اڈوں پر ڈرون حملے کئے جارہے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم کے واشنگٹن دورے کا اصل مقصد عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر گفتگو کرنا ہے۔
عراقی وزیر اعظم کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد امریکی صدر بائڈن نے میڈیا کو بتایا کہ عراق میں اب امریکہ کا رول داعش سے مقابلے میں اسکی مدد اور اسکے فوجیوں کی تربیت دینا جاری رہے گا۔ امریکہ اس برس کے آخر تک عراق میں جنگی مشن میں باقی رہے نہیں رہےگا۔ اس وقت عراق میں امریکہ کے 2,500 فوجی ہیں۔ جو داعش کے خاتمے کی کوششوں کے نام پر تعینات ہیں۔ حالانکہ باو ثوق ذرائع کا دعویٰ ہیکہ امریکی فوجی داعش کی سلامتی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مارچ2003 میں امریکی فوج نے عراق پر حملہ کیا تھا۔اسکا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ صدام حسین کے پاس بھاری تباہی کے ہتھیار ہیں۔ صدام کواقتدار سے بے دخل کردیا گیا لیکن وہ ہتھیار آج تک نہیں ملے۔