
کہاں گئے کہیں نہیں۔ کیا لائے کچھ نہیں۔ یہ جملہ امریکہ اور ناٹو کے لئے افغانستان کے حوالے سے بالکل ٹھیک لگتا ہے۔ امریکی صدر جو بائڈن اور انکے ناٹو ہم منصبین 11ستمبر کو افغانستان کو خیر باد کہہ دیں گے۔ اسطرح امریکہ کی سب سے طویل جنگ اختتام کو پہونچ جائےگی۔ افغانستان سے امریکہ اور ناٹو کا انخلا یہ سوال اپنے پچھے چھوڑ جائےگا کہ امریکہ اور ناٹو کو اس جرت مندانہ آپریشن سے حاصل کیا ہوا۔؟ افغانستان میں اٹھارہ سالہ موجودگی کے دوران صرف امریکہ کو 2.26 ٹرلین ڈالر( ایک ٹرلین دس کھرب) کی چپت لگی۔امریکہ کے2,442 فوجی ہلاک ہوئے۔ براؤن یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق امریکی اتحادیوں کے 1,144 اہلکار مارے گئے۔ قابل ذکر ہیکہ ناٹو اپنے آپریشنز کے دوران ہلاک ہونے والوں کا حساب کتاب نہیں رکھتا۔ امریکہ اور اتحادیوں سے زیادہ نقصان افغانستان کو برداشت کرنا پڑا۔47,000 افغان شہری مارے گئے۔ قومی مسلح دستوں اور پولیس کے 69,000 اہلکار ہلاک ہوئے۔ جبکہ 51,000 سے زیادہ مخالف ملیٹنٹ مارے گئے۔ امریکی ماہرین کا دعویٰ ہیکہ امریکی آپریشن سے افغانستان میں استحکام پیدا ہوا اور سلامتی قائم ہوئی۔

امریکی قیادت میں ناٹو کے انخلا کے ساتھ اسکے یورپی اتحادی اور کینیڈا امریکی صدر کے منھ سے یہ سننا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انکے سفارتخانوں کی حفاظت کون کریگا۔ آمد و رفت کے اہم راستوں خاص طور سے کابل ہوائی اڈہ کب تک اور کس طرح سلامت رہےگا۔اتحادیوں کو یہ بھی فکر ہیکہ افغان حکومت کتنے روز تک باقی رہےگی۔ اور باقی رہی تو طالبان کی بڑھتی طاقت کا مقابلہ کیسے کرےگی۔ناٹو کا پلان فی الحال یہ ہیکہ حکومتی اداروں کی مدد کی خاطر اپنے غیر فوجی مشیروں کو وہاں رہنے دیا جائے۔30 ملکوں کا اتحاد اس بات پر بھی غور کررہا ہیکہ کہ افغانستان سے باہر افغان اسپیشل فورسیز کو تربیت دی جاسکتی ہے یا نہیں۔ ایسی صورت میں کہ جب افغانستان کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد حصہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزاز رہا ہے۔ جرائم کا بول بالا ہے۔ بد عنوانی آسمان پر ہے۔ خلاف قانون معیشت جائز معیشت کی جگہ لے چکی ہے۔ افغانستان اپنے طور پر کسے مستحکم اور پر امن رہ سکتا ہے یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔2003 میں جب ناٹو نے افغانستان میں عالمی سلامتی آپریشن کی ذمہ داری سمبھالی تھی تب اسکا مقصد حکومت کو مستحکم کرنا، مقامی سلامتی دستوں کو تیار کرنا اور انتہا پسند گروپوں کو ختم کرنا تھا.

برس بعد افغانستان کا حال یہ ہیکہ ایک عام افغانی کی سلامتی پہلے سے زیادہ خطرے میں ہے۔ راجدھانی کابل مجرم پیشہ گینگوں سے بھری پڑی ہے۔ جن میں بیشتر کا رشتہ مضبوط جنگ جو سرداروں سے ہے اور افغانستان میں قد م جمانے کی کوشش میں لگے داعش کے حملے معمول بن گئے ہیں۔18 برس پہلے جن طالبان کا قلع قمع کرنے کے لئے امریکی اور ناٹو فوجی افغانستان آئے تھے اب بدلے ہوئے منظر نامے میں افغانستان کے بیشتر حصے پر طالبان کا ہی قبضہ ہے۔ اور اب وہ امریکہ کے مذاکرات کار بن چکے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہو چکا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت امریکہ کو افغانستان چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ قصہ مختصر۔۔ امریکی فوج کے افغانستان میں آپریشن سے سوائے جانی اور مالی نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔اٹھارہ سال پہلے جو امریکہ طالبان کا دشمن تھا اب طالبان کا دوست بن گیا ہے۔
